سپریم کورٹ نے جمعرات کو مبارک ثانی کیس میں ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے علما کی تجاویز پر فیصلے کے پیراگراف سات اور 42 حذف کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پنجاب حکومت کی دائر نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کرنے کے بعد اپنے فیصلے میں کہا کہ کیس میں حذف شدہ پیراگراف کو بطور عدالتی نظیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے اردو میں مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’ٹرائل کورٹ حذف شدہ پیراگراف کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ یہ کیوریٹیو ریویو نہیں بلکہ فیصلے میں تصحیح کا کیس تھا۔‘
آج سماعت کے دوران مختلف علما نے بینچ سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے فیصلے میں سے پیراگراف سات اور 42 حذف کر دیں۔
میں غلطی سے بالاتر نہیں: چیف جسٹس کا تقی عثمانی سے مکالمہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعرات کو مبارک ثانی کیس میں نظرِ ثانی کی اپیل سننے کے دوران کہا کہ جس دن انہوں نے دباؤ میں فیصلے دیے وہ یہاں پر نہیں رہیں گے۔
آج سماعت کے آغاز پر وکیل ریاض حنیف راہی نے روسٹرم پر آ کر استدعا کی کہ کیس سے متعلق ایک درخواست کر رکھی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ نظر ثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ اور علمائے کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا اور حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیے جانے کا کہا۔
’سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط ملا اور وزیراعظم کی ہدایات ہیں۔ ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہو سکتی اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے آئے ہیں، چونکہ یہ مذہبی معاملہ ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ’کہنا تو نہیں چاہیے لیکن مجبور ہوں، ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے۔ انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے۔‘
سماعت کے دوران علامہ تقی عثمانی نے 29 مئی کے فیصلے سے دو پیراگراف سات اور 42 حذف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پیراگراف 42 میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی غیر مشروط اجازت دی۔
چیف جسٹس نے کہا: ’تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت سارے دستاویزات ملے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو دیکھ نہیں سکا وہ میری کوتاہی ہے۔ عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہے ہمیں نشاندہی کریں۔ اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں۔ میں کوئی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔‘
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ’معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑھتے ہیں‘۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ’چھ فروری کا فیصلہ نظرثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔‘
مفتی تقی عثمانی نے کہا ’آپ فیصلے میں طے شدہ مسائل سے زیادہ اصل مسئلہ کو وقت دیتے، آپ نے فیصلہ کے پیراگراف سات میں لکھا کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہا تھا۔ تاثر مل رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دے سکتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا ’ماضی میں لوگ قاضی یا جج بننا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ مشکل ہے، مجھے بھی قاضی بننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ آپ نے نظرثانی کی درخواست دی ہم نے فوری لگا دی کوئی بات نہیں چھپائی۔‘
چیف جسٹس کا مولانا فضل الرحمن سے مکالمہ
اس کے بعد جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن روسٹرم پر آئے بات کا آغاز کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کی کئی نشستیں ہوئیں اب نظرثانی ہے‘۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ نظرثانی نہیں ہے۔‘
فضل الرحمن نے جواب دیا کہ ’یہ نظر ثالث ہے۔ علما نے اپنی رائے دی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی سامنے آ چکی ہے، آپ کے فیصلے کے خلاف یہ آرا آئی ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جو بھی یہاں پر آئے غلطیوں کی نشاندہی کریں۔ ’قادیانی پوری امت مسلمہ کو غیر مسلم کہتے ہیں۔
’مرزا غلام احمد قادیانی کہتا تھا جو اس پر ایمان نہ لائے وہ غیر مسلم ہے۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں غیر مسلم کہتے ہیں جو وہ کہتے ہیں اس پر بات نہیں ہوتی، قادیانی مرتد ہیں تو ہم نے انہیں غیر مسلم کا نام کیوں دیا یہ سوال بھی ہے۔ ہم پاکستان میں غیر مسلموں کے لیے کوئی مسلئہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فضل الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج سے چار سال قبل مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ آپ کو پتہ ہے نہ کس نے دی تھی؟‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ قومی اسمبلی وفاقی حکومت کو یہ ہدایت دے گی کہ اس مقدمے کے واقعاتی اور قانونی پہلوؤں اور علمائے کرام کی رائے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی جائے۔
جس دن دباؤ میں فیصلے کیے میں یہاں نہیں رہوں گا: چیف جسٹس
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو مفتی طیب قریشی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا ان سے پہلے جن علما نے رائے دی وہ ان سے متفق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قادیانیوں نے اپنی تفسیر صغیر مسلمانوں کی طرز پر ترتیب دی ہے، کوئی عام مسلمان اپنی اور قادیانیوں کی تفسیر میں تفریق نہیں کر پاتا۔
’عدالت سے ہاتھ باندھ کر استدعا کر رہا ہوں کہ مسلمان مضطرب ہیں انہیں تسلی دیں۔ علما کی جانب سے دی گئی تجاویز پر عملدرآمد کیا جائے۔‘
اس کے بعد صاحب زادہ ابوالخیر محمد زبیر نے روسٹرم پر آ کر بینچ سے نظرثانی فیصلے کا پیراگراف 42 حذف کرنے کی استدعا کی۔
’جس دن دباؤ میں فیصلے کیے میں یہاں نہیں رہوں گا‘
علامہ جواد نقوی کے دلائل کے دوران چیف جسٹس نے انہیں روکا اور پوچھا کہ ’کیا آپ نے ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا؟‘ اس پر نقوی نے جواب دیا کہ نہیں، انہوں نے میڈیا پر سنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا فیصلہ ’سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے، ایک مرتبہ پڑھ لیجیے گا۔ جس دن میں نے دباؤ میں فیصلے کیے تو میں یہاں نہیں رہوں گا۔ میں نے یہ عہدہ نہیں مانگا تھا اور نہ مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔‘
انہوں نے کہا ’میں کراچی میں وکالت کر رہا تھا، مجھے کہا گیا بلوچستان میں کوئی جج نہیں، آپ آ جائیں۔ مجھے کسی چیز کا لالچ نہیں تھا۔
’جتنی میری سیلری تھی اتنا میں ٹیکس دیتا تھا، لیکن کہا گیا تو میں راتوں رات کپڑے اٹھائے بنا چلا گیا۔ مجھے مرسیڈیز اور لینڈ کروزر ملی وہ بھی واپس کر دی۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’دباؤ میں فیصلے کیے ہیں یا کر رہا ہوں، یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ مجھ سے غلطی ضرور ہو سکتی ہے اور ہوتی رہے گی، یہ ایک دینی معاملہ ہے اور آپ کو بلایا ہے تاکہ رائے دے سکیں۔‘
پارلیمنٹ تو عدالتی فیصلے بھی کالعدم قرار دے سکتی ہے: چیف جسٹس
علامہ جواد نقوی نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے میں تضادات سے متعلق جواب تیار کیا ہے۔
چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ اپنا جواب لاہور رجسٹری میں جمع کروا دیں ہم تک پہنچ جائے گا۔‘
جواد نقوی نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کو دباؤ میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، ایف آئی آر میں کچھ چیزیں شامل کی گئیں جن سے مسائل پیدا ہوئے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس میں کہا: ’مجھے قاضی بننے کا شوق نہیں، علما سے اس لیے رہنمائی مانگی کیونکہ دینی معاملات میں غلطی ہوسکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سماعت کے دوران امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن کی جگہ فرید پراچہ عدالت میں پیش ہوئے۔
انہوں نے کہا وہ بھی فیصلے میں ترمیم چاہتے ہیں۔ ’تمام مسلمان ختم نبوت پر متفق ہیں۔‘
بعد ازاں مولانا عطا الرحمٰن نے روسٹرم پر آ کر کہا ’سپریم کورٹ اکثر فیصلوں میں قرآنی آیات و احادیث کا حوالہ دیتی ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے اسلامی اصولوں کا حوالہ دینا قابل تحسین ہے، ان میں ابہام آ جائے تو دور کرنا لازمی ہے۔‘
پروفیسر ساجد میر کے نمائندے ورک حافظ احسان کھوکھر نے عدالت میں پیش ہو کر کہا ’سپریم کورٹ چھ فروری اور 24 جولائی کے فیصلے کو ختم کر کے نیا فیصلہ جاری کرے، اگر پہلے والے فیصلے برقرار رہے تو مستقبل میں ان کا حوالہ دیا جائے گا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح فیصلے ملانے کی کوئی عدالتی نظیر ہو تو بتا دیں۔ وکیل نے جواب دیا وہ اس سے متعلق سپریم کورٹ کو ریکارڈ فراہم کر دیں گے۔
بعد ازاں وکیل لطیف کھوسہ نے کہا ’میرا اور صاحبزادہ حامد رضا کا نام بھی فہرست میں شامل کریں، ہم پارلیمانی کمیٹی اور پارلیمنٹ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ’پارلیمنٹ تو عدالتی فیصلے بھی کالعدم قرار دے سکتی ہے، پارلیمان میں جا کر اپنا اختیار استعمال کریں۔‘
مبارک ثانی کیس میں حذف کیے جانے والے پیراگراف سات اور 42 میں کیا ہے؟
سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے حکم نامے کے پیراگراف سات میں لکھا گیا کہ’ایف آئی آر میں ملزم پر مجموعہ تعزیرات 295 بی کا تو ذکر کیا گیا لیکن کسی قانونی شق کا صرف ذکر کرنا ملزم کے اس دفعہ کے تحت جُرم کے لیے ذمہ دار ٹھرانے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔
ایف آئی آر کے مندرجات میں توہین قرآن کا الزام نہ تو بلا واسطہ اور نہ ہی بالواسطہ لگایا گیا تھا اور چونکہ مذکورہ ادارہ جہاں ایف آئی آر کے مطابق ممنوعہ کتاب تقسیم کی گئی تھی احمدیوں کا ادارہ تھا، اس لیے اس فعل پر مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 298 سی کا اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔‘
فیصلے کے پیراگراف سات میں بتایا گیا کہ’ عدالت کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ ملزم قید میں 13 مہینے گزار چکا ہے جبکہ ممنوعہ کتاب کی تقسیم کا جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا چھ مہینے قید ہے جو فوجداری ترمیمی قانون 1932 کی دفعہ 5 کے تحت ہے۔
’اس لیے عدالت نے اپنے چھ فروری کے حکم نامے میں لکھا کہ چونکہ درخواست گزار کے مجرم ثابت ہونے پر اس جرم کی سزا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ ہے جو کہ پہلے سے وہ گزار چکا ہے اس لیے اسے مزید قید میں رکھنا اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘
سپریم کورٹ نے پیراگراف 42 میں لکھا کہ آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل کہ وہ عوامی سطح پر مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے، نہ ہی عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے۔
’تاہم اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر انہیں قانون کے تحت مقررہ کردہ ’معقول قیود‘ کے اندر ’ گھر کی خلوت‘ کا حق حاصل ہے۔‘