معاشی ماہریں کے مطابق پاکستان میں کاروبار کے لیے حالات سازگار نہ ہونے، ٹیکسوں، بجلی کی قیمت اور مہنگائی میں اضافے کے باعث لوگوں کی قوت خرید میں کمی سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے بزنس کم یا ختم کر رہی ہیں۔
حال ہی پاکستان میں 800 سے زیادہ فیول پمپ کا نیٹ ورک رکھنے والی فرانس کی کمپنی ٹوٹل انرجی نے اپنا 50 فیصد بزنس یا 26.5 ملین ڈالر مالیت کے شیئرز سویٹزرلینڈ کے گنوور گروپ کو بیچ دیے ہیں۔
شیل انرجی اپنے 77.42 فیصد حصص سعودی کمپنی وافی انرجی کو فروخت کرنے کا معاہدہ پہلے ہی کر چکی ہے۔
انرجی کمپنیوں کے علاوہ ٹیلی نار گروپ بھی اپنا سیٹ اپ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کو 38 کروڑ 80 لاکھ ڈالر میں فروخت کر چکا ہے۔ فارماسوٹیکل جائنٹس فائزر اور فرانس کی سنوفی بھی ایسی ہی ملٹی نیشنلز ہیں، جنہوں نے اپنے کاروبار بزنس بند کر دیے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی غیر ملکی کمپنیاں یا تو مکمل طور پر پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کر رہی ہیں یا کم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق پاکستان میں بگڑتی معاشی صورت حال کے بعد نہ صرف عالمی اور غیر ملکی کمپنیاں بلکہ مقامی کمپنیاں، صعنتیں یا کاروبار بھی بند ہو رہے ہیں یا فروخت کیے جا رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا: ’حکومت کی جانب سے مختلف اقسام کے ٹیکس عائد کرنے کے بعد خام مال، بجلی سمیت آپریشنل قیمت میں بے پناہ اضافے کے بعد مختلف اشیا بنانے والی کمپیناں یا سروسز دینے والی کمپنیاں جیسے موبائیل نیٹ ورک چلانے والی کمپنیوں کو اپنی اشیا یا سروسز کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا۔
’اس اضافے کے باعث لوگوں میں قوت خرید ختم ہو گئی۔ زیادہ قیمت کے بعد لوگ اگر اشیا خرید نہیں رہے یا کوئی سروس نہیں لے رہے تو اس کمپنی کا کاروبار نہیں ہو رہا۔ ایسے میں کوئی کمپنی نقصان میں کس طرح کاروبار جاری رکھ سکتی ہے؟
’نقصان کے بعد پاکستان سے مختلف کمپنیاں یا تو کسی کو بک رہی ہیں یا بند کی جا رہی ہیں۔‘
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ کے مطابق کاروبار ی حالات اچھے نہ ہونے کے باعث سرمایہ کار اپنے سرمایہ کو اچھی جگہ لے جانا چاہتے ہیں اور اسی لیے پاکستان میں ملٹی نیشنل سمیت دوسری مختلف کمپنیاں کاروبار بیچ کر یا بند کر کے دوسری جگہ جا رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد شیخ کا کہنا تھا کہ ’نہ صرف غیر ملکی کمپنیاں بلکہ پاکستان کی مقامی کمپنیاں بھی اپنا کاروبار بند کر کے دیگر ممالک کو جا رہی ہیں۔ یہ اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصے کے دوران دبئی میں پاکستان کی 400 کمپنیوں نے رجسٹریشن کروائی ہے۔‘
معاشی ماہر اور کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے مطابق نہ صرف عالمی اور بیرون ممالک کی کمپنیاں بلکہ پاکستان کی مقامی کمپنیاں بھی کاروبار کے لیے حالات سازگار نہ ہونے کے باعث پاکستان چھوڑ کر جا رہی ہیں۔
ظفر پراچہ کے مطابق دیگر بیرون ممالک کے ساتھ کئی مالیاتی ادارے اور بینک کئی سال پہلے پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کر چکے ہیں۔ ان میں بینک آف امریکہ، بینک آف ٹوکیو اور رائل بنیک آف سکاٹ لینڈ لمیٹڈ (آر بی ایس) سمیت کئی مالیاتی اداروں نے مسقتل طور پر پاکستان کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ظفر پراچہ نے کہا کہ بیرون ممالک کی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں آپریشنز بند کرنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں کچھ عرصے سے ڈالر کی قیمت میں کمی بھی ایک وجہ ہے۔ پاکستان میں ڈالر بلیک مارکیٹ میں 150 روپے اور انٹر بینک میں 100 تک چلا گیا تھا، جو اب 80 روپے آگیا ہے۔
ظفر پراچہ کے مطابق: ’غیر ملکی کمپنیاں پاکستان سے منافع کما کر جب ڈالر باہر لے جانا چاہتی ہیں تو کم قیمت کے باعث انہیں نقصان ہو رہا ہے۔
’اس کے علاوہ بینکوں کی جانب سے غیر ملکی کی کمنیوں کے ساتھ ڈالر کی خرید و فروخت میں 15 سے 20 روپے تک کا فرق رکھا گیا ہے، جس سے ان کمپنیوں کو مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بیورو کریٹس اور ایف بی آر کو حاصل صوابدید کہ وہ جس پر چاہیں جتنا ٹیکس لگائیں اور کارپوریٹ ٹیکسز سے غیر ملکی کمپنیاں تنگ ہیں۔ پاکستان سے جانا کا ان کے لیے یہ ایک اور سبب ہے۔
’اوور ٹیکسیشن اور اوور ریگیولیشن کے باعث نہ صرف غیر ملکی بلکہ مقامی کمنیاں بھی تنگ ہیں۔‘
ظفر پراچہ کے مطابق کمپنیوں کا کاروبار کم یا ختم کرنے کے باعث دیگر کمپنیاں پاکستان آنے کو تیار نہیں ہیں اور اگر کوئی کمپنی آتی ہیں تو وہ پاکستان کے لیے درد سر بن جاتی ہیں۔ جسیے پاکستان میں بجلی کے نجی کارخانے (آئی پی پیز) چلانے والی غیر ملکی کمپنیاں ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان میں کاروبار کے لیے ماحول سازگار نہیں بنایا جاتا غیر ملکی اور مقامی کمپنیاں کاروبار کرنے کا سوچ بھی سکتیں۔‘
اس سلسلے میں حکومتی مؤقف جاننے کے لیے پاکستان کے وفاقی وزیر تجارت جام کمال سے مسلسل دو روز تک رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
وفاقی وزارت تجارت کے ترجمان نوید الحق کلو سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے کو بتایا کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں، اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔