عمر صفدر پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ اپنا ایک پلاٹ بیچنا چاہتے ہیں۔ ڈیلر کے پاس گئے تو انہیں پتہ چلا کہ ویسے تو پلاٹ کی قیمت دو کروڑ روپے ہے لیکن ریئل سٹیٹ کاروبار ٹھپ ہونے کی وجہ سے ایک کروڑ 75 لاکھ میں بک سکتا ہے۔
یہ حالات دیکھ کر وہ کافی پریشان ہوئے اور اس سوچ میں گم تھے کہ پلاٹ بیچوں یا نہ بیچوں۔ اسی دوران پراپرٹی ڈیلر نے مزید بتایا کہ بجٹ میں پراپرٹی بیچنے والے فائلرز پر 15 فیصد اور نان فائلرز پر 45 فیصد تک کیپیٹل گین ٹیکس بھی لگ گیا ہے۔
اگر پلاٹ بیچیں گے تو تین فیصد ودہولڈنگ انکم ٹیکس دینا ہو گا، جو وفاق کو جائے گا۔ ان کے علاوہ صوبوں کو سی وی ٹی ٹیکس اور سٹامپ ڈیوٹی ٹیکس بھی ادا کرنا ہوں گے۔ نان فائلرز کے لیے یہ ریٹ تین گنا ہیں۔
عمر صفدر نے حساب لگایا تو پتہ چلا کہ ایک کروڑ 75 لاکھ کا پلاٹ بیچنے پر نان فائلر کی صورت میں تقریباً 80 لاکھ روپے ٹیکس سرکار کو ادا کرنا ہو گا۔
وہ سوچنے لگے کہ پہلے ہی دو کروڑ کا پلاٹ 25 لاکھ نقصان میں بک رہا ہے۔ مزید 80 لاکھ روپے اگر سرکار کو ٹیکس دیں گے تو یہ نقصان ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے ہو جائے گا۔
انہوں نے پلاٹ بیچنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سرکار پراپرٹی پر اتنا ٹیکس لے رہی ہے تو اس کے بدلے دے کیا رہی ہے۔ پراپرٹی میں یہ ٹیکسز بھتہ لینے کے مترادف ہے۔
عوام کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سرکار نے بندوق کے بجائے توپ کا فائر کر دیا ہے۔ اس سے نہ صرف پراپرٹی کے کاروبار کو نقصان ہو گا بلکہ عام آدمی کے لیے پلاٹ خریدنا اور گھر بنانا ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز آف پاکستان کے چیئرمین آصف سم سم نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ریئل سٹیٹ کی صنعت پہلے ہی شدید بحران کا شکارہے۔ اتنے ٹیکسز ایسے سیکٹرز پر لگنے چاہییں، جہاں کاروبار میں تیزی ہے۔ ریئل سٹیٹ پر ٹیکس لگانے کا مطلب تقریباً 45 صنعتوں کی تباہی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’رواں مالی سال میں چھ سال پرانی خریدی گئی پراپرٹی کی فروخت پر کیپیٹل گین ٹیکس نہیں تھا۔ اس کے علاوہ مختلف مدت میں بیچی گئی پراپرٹی پر ٹیکس ریٹ مختلف تھا، لیکن نئے بجٹ میں وقت کی حد ہی ختم کر دی گئی ہے۔ جو پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کی نسبت رہائش کے لیے گھر یا پلاٹ خریدنے والے حقیقی کسٹمرز کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ریئل سٹیٹ پر کیپٹل گین ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے اضافی ٹیکسز کا معیشت پر بہت برا اثر پڑے گا۔ ایک ہزار گز کے پلاٹ پر جب کنسٹرکشن ہوتی ہے تو تقریباً 800 ملین روپے مقامی انڈسٹری کو جاتے ہیں۔‘
اسی طرح: ’بیرون ملک پاکستانی جو ڈالرز ملک میں بھیجتے ہیں اس کا تقریباً 70 فیصد ریئل سٹیٹ میں آتا ہے۔ اگر اس طرح ٹیکسز لگتے رہے تو بیرون ملک پاکستانی پاکستان کے بجائے دبئی میں سرمایہ کاری کریں گے۔‘
بقول آصف سم سم: ’جو 12 ارب ڈالرز کی دبئی پراپرٹیز سامنے آئی ہیں وہ 2022 کا ڈیٹا ہے۔ اگر 2024 کا ڈیٹا چیک کریں تو یہ دوگنا سے زیادہ ہو چکی ہوں گی۔ اس کی وجہ پاکستانی سرکار کی غلط پالیسیاں ہیں۔ اگر سرکار نے پراپرٹی پر ٹیکس ریٹ کم نہ کیے تو مقامی سرمایہ کار بھی ملک چھوڑ جائیں گے۔ آج کے دور میں انویسٹر کو جہاں فائدہ ملتا ہے وہ وہیں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ آپ اسے روک نہیں سکتے۔
’سرکار کو چاہیے تھا کہ وہ بجٹ سے پہلے بلڈرز ایسوسی ایشن سے مشاورت کرتی تاکہ قابل عمل اور بہتر بجٹ پیش کیا جا سکتا۔‘
لاہور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق جزل سیکرٹری عبدالوحید نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پراپرٹی بیچنے والے کو کیپیٹل گین ٹیکس، انکم ٹیکس، سی وی ٹی اور سٹامپ ڈیوٹی کے علاوہ سیون ای کا ٹیکس بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ سیون ای کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے ورنہ پراپرٹی ٹرانسفر نہیں ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پیچیدہ ٹیکسز کی وجہ سے رشوت بڑھتی ہے۔ ٹیکس کا نظام سادہ ہونا چاہیے تاکہ عام آدمی اسے آسانی سے سمجھ سکے۔ ابھی صورت حال یہ ہے کہ نئے بجٹ کے بعد ٹیکس ماہرین بھی کنفیوز ہیں کہ کیا کیپیٹل گین ٹیکس نئے مالی سال کی پراپرٹیز پر لگے گا یا پرانی پراپرٹیز پر بھی یہ قانون لاگو ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے علاوہ کیا ایڈوانس ٹیکس پراپرٹی بیچتے وقت کیپیٹل گین ٹیکس میں سے ایڈجسٹ کیا جا سکے گا یا ریٹرن فائل کرتے وقت ایڈجسٹ ہو گا۔ ان حالات میں رئیل سٹیٹ کی ٹرانزیکشن کرنا بہت مشکل ہے۔‘
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز آف پاکستان کے سابق کوآرڈینیٹر ظفر پراچہ نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کیپیٹل گین ٹیکس کے نئے قوانین سے سرکار کو مطلوبہ ٹیکس نہیں ملے گا۔
’پہلے ہی رئیل سٹیٹ سیکٹر ڈوبا ہوا ہے، نئے ٹیکس لگنے سے یہ کاروبار تقریباً ختم ہی ہو جائے گا۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کچھ نہیں ہے۔ یہ تقریباً دو فیصد ہے جب کہ یہ 20 فیصد ہونا چاہیے۔
’ریئل سٹیٹ قوانین کی ری سٹرکچرنگ ہونی چاہیے۔ پراپرٹی کا کوئی بھی کاروبار ایس ای سی پی میں رجسٹریشن کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں نے 2003 میں رئیل سٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ کو متعارف کروایا تھا، جس کے تحت کوئی بھی ڈیویلپر اس وقت تک رئیل سٹیٹ کا کاروبار نہیں کر سکتا جب تک وہ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ نہ ہو جائے۔‘
بقول ظفر پراچہ: ’دبئی اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سرکار اور ڈیویلپرز کا ایسکرو کے تحت اکٹھا اکاؤنٹ کھلتا ہے جس سے عوام کا اعتماد بڑھتا ہے۔ ہر ٹرانزیکشن رجسٹرڈ ہوتی ہے۔ اس سے ٹیکس ریٹ کم ہو جاتا ہے اور ٹیکس زیادہ اکٹھا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے دبئی طرز کا سسٹم لاگو کرنا پڑے گا۔‘