لاہور کی ایک عدالت نے پیر کو برطانیہ میں ہونے والے حالیہ فسادات کے تناظر میں غلط معلومات پھیلانے کے الزام کا سامنا کرنے والے پاکستانی شہری فرحان آصف کو بری کر دیا۔
برطانیہ میں گذشتہ دنوں فیک نیوز کے باعث شہریوں کی جانب سے پرتشدد احتجاج اور ہنگامے کیے گئے جس کے بعد ملوث افراد میں سے متعدد کو برطانوی پولیس نے گرفتار کیا جبکہ گذشتہ ہفتے مبینہ طور پر فیک نیوز پھیلانے پر لاہور سے فرحان آصف کو حراست میں لے کر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پیر کو سماعت کے بعد جج نے فرحان آصف کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
فرحان نے جج کو بتایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ کو صرف چھ گھنٹے بعد ہی ڈیلیٹ کردیا تھا جب انہیں احساس ہوا کہ یہ خبر جعلی تھی۔
بعد ازاں وکیل دفاع رانا رضوان نے صحافیوں کو بتایا کہ ایف آئی اے نے جج کو بتایا کہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے کا جرم کیا تھا۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے فرحان آصف پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 29 جولائی کو شمال مغربی انگلینڈ میں ایک ڈانس کلاس میں چاقو سے حملہ کرنے والے مشتبہ شخص کے بارے میں یوٹیوب اور فیس بک پر غلط معلومات پھیلائی تھیں۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور پولیس فیصل کامران نے منگل کو اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’فرحان آصف کو پولیس نے ڈیفنس سے گرفتار کیا تھا۔
پولیس افسر نے بتایا کہ ’ان (فرحان فیصل) پر الزام ہے کہ برطانیہ میں تین بچیوں کے قاتل کی شناخت کے حوالے سے خبر چلانے والی پاکستانی ویب سائٹ میں یہ بھی کام کرتے ہیں۔ اس خبر چلانے میں ان کا بھی کردار ہے۔‘
ڈی آئی جی کے مطابق فرحان آصف کو مزید تفتیش کے لیے ایف آئی اے کے حوالےکر دیا گیا تھا۔
فرحان آصف نے برطانیہ میں ہونے والے واقعات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’ہماری جانب سے غلط خبر چلائی گئی جو نہیں چلنی چاہیے تھی۔ لیکن اس معاملے کی تمام تر ذمہ داری ایک چھوٹی سی نیوز ویب سائٹ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔‘
برطانوی حکام کے مطابق حالیہ دنوں برطانیہ میں ہونے والے مظاہروں کو پرتشدد بنانے میں فیک نیوز نے مرکزی کردار ادا کیا۔ فیک نیوز پھیلانے والے ایک نیوز پلیٹ فارم کو پاکستان کے شہر لاہور سے بھی چلایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی میڈیا کے مطابق ساؤتھ پورٹ کے ایک ڈانس سکول میں گذشتہ ماہ ایک شخص نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں تین بچیاں جان سے گئیں جبکہ آٹھ بچیوں سمیت 10 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
حملہ آور اگرچہ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا تاہم بعد میں پولیس نے اسے آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔
برطانوی پولیس کے مطابق حملہ آور کی عمر 17 سال ہے جس کے باعث اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی۔
اس واقعے کے بعد برطانیہ میں یہ افواہ پھیلی کہ حملہ آور مسلمان تھا اور کئی ویب سائٹس نے ملزم کی شناخت ظاہر کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔
جس کے بعد برطانیہ بھر میں مسلمان پناہ گزینوں کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور جھڑپوں میں پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
ساؤتھ پورٹ حملے کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کو سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں سے شہہ ملی اور فیک نیوز پھیلانے میں ایک نیوز ویب سائٹ ’چینل تھری ناؤ‘ کا بھی ہاتھ تھا۔
تحقیقات کے دوران اس نیوز ویب سائٹ کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو تلاش کیا گیا جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے۔