کوکا کولا اور اس کی حریف کمپنی پیپسی نے کئی دہائیوں میں مصر سے لے کر پاکستان سمیت مسلم اکثریتی ممالک میں اپنی سافٹ ڈرنکس کی مانگ بڑھانے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔
تاہم اب ان ممالک میں دونوں سافٹ ڈرنکس کو مقامی سوڈا کے چیلنج کا سامنا ہے، کیونکہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران صارفین کی جانب سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے برانڈز کا امریکی اور بالواسطہ طور پر اسرائیل کی علامت کے طور پر بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔
مصر میں رواں سال کوک کی فروخت میں کمی آئی ہے جبکہ مقامی برانڈ وی سیون نے مشرق وسطیٰ اور وسیع تر خطے میں گذشتہ سال کے مقابلے میں تین گنا زیادہ اپنی کولا کی بوتلیں برآمد کی ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایک ہنگامہ آرائی نے کوکا کولا کو بائیکاٹ کے خلاف ایک اشتہاری مہم منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا اور پورے مشرق وسطیٰ میں، اکتوبر 2023 سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت شروع ہونے کے بعد پیپسی کی تیز رفتار ترقی اب ختم ہو گئی ہے۔
پاکستانی کارپوریٹ ایگزیکٹو سنبل حسن نے اپریل میں کراچی میں اپنی شادی کے کھانے کے مینیو سے کوک اور پیپسی کو نکال دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ انہیں لگے کہ ان کے پیسے اسرائیل کے اتحادی امریکہ کے ٹیکس خزانے میں چلے گئے ہیں۔
سنبل حسن نے کہا: ’بائیکاٹ کر کے، کوئی بھی ان فنڈز میں حصہ نہ ڈال کر اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔‘ انہوں نے اپنی شادی میں آئے ہوئے مہمانوں کو پاکستانی برانڈ کولا نیکسٹ پیش کیا۔
ایسا کرنے والی وہ اکیلی نہیں ہیں۔ مارکیٹ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ فروخت کے نقصانات کا مالی تخمینہ لگانا مشکل ہے اور پیپسی اور کوکا کولا کا کاروبار اب بھی مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک میں بڑھ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارکیٹ کے تجزیہ کار نیلسن آئی کیو کا کہنا ہے کہ مغربی مشروبات کے برانڈز کو پورے خطے میں سال کی پہلی ششماہی میں فروخت میں سات فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان میں معروف ڈیلیوری ایپ کریو مارٹ نے کولا نیکسٹ اور پاک کولا جیسی مقامی حریف کمپنیوں کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا اور وہ سافٹ ڈرنکس کے زمرے میں تقریباً 12 فیصد تک پہنچ گئی ہیں۔ ایپ کے بانی قاسم شروف نے رواں ماہ روئٹرز کو بتایا کہ بائیکاٹ سے پہلے یہ نمبر 2.5 فیصد کے قریب تھا۔
قاسم شروف نے کہا کہ بائیکاٹ سے پہلے زیادہ تر خریداری پاک کولا کی ہوتی تھی، جو آئس کریم کے ذائقے والا سوڈا ہے۔ انہوں نے کوکا کولا اور پیپسی کی فروخت کے اعداد و شمار فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
صارفین کے بائیکاٹ کی تاریخ برطانیہ میں کم از کم 18ویں صدی میں غلامی کے خلاف چینی کی مخالفت تک جاتی ہے۔ یہ حکمت عملی 20 ویں صدی میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کی گئی تھی اور اب بائیکاٹ، تقسیم اور پابندیوں کی تحریک کے ذریعے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر استعمال کی گئی ہے۔
کوکا کولا اور پیپسی چھوڑنے والے بہت سے صارفین کئی دہائیوں سے اسرائیل کی امریکی حمایت کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں حماس کے ساتھ جاری موجودہ تنازع بھی شامل ہے۔
پیپسی کو کے سی ای او رامون لاگورتا نے رواں برس 11 جولائی کو روئٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا: ’کچھ صارفین سیاسی تاثر کی وجہ سے اپنی خریداری میں مختلف فیصلے کر رہے ہیں۔‘ اور یہ بھی کہا کہ بائیکاٹس کا ’خاص خطوں‘ جیسے لبنان، پاکستان اور مصر میں اثر ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم وقت کے ساتھ اسے سنبھال لیں گے، اس وقت یہ ہمارے مجموعی منافع اور خالص منافع کے لیے کوئی خاص معنی نہیں رکھتا۔‘
کمپنی کی دستاویز میں دکھایا گیا کہ 2023 میں پیپسی کو کی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا ڈویژن سے کل آمدنی چھ ارب ڈالر رہی۔ اسی سال کوکا کولا کی یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے خطے سے آمدنی آٹھ ارب ڈالر تھی۔
پیپسی کو کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد کے چھ ماہ میں افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا ڈویژن میں اس کمپنی کے مشروبات کی مقدار میں بمشکل اضافہ ہوا جبکہ 23-2022 کی اسی سہ ماہی میں آٹھ فیصد اور 15 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
کوکا کولا ایچ بی سی کے اعداد و شمار کے مطابق 28 جون کو ختم ہونے والے چھ ماہ کے دوران مصر میں فروخت ہونے والی کوک کے حجم میں کمی کا فیصد دوہرے ہندسے میں تھا۔ گذشتہ سال کے اسی عرصے میں، فروخت میں ہائی سنگل ڈیجٹ اضافہ ہوا تھا۔
کوکا کولا نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل یا کسی بھی ملک میں فوجی کارروائیوں کے لیے مالی اعانت فراہم نہیں کرتی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی درخواست کے جواب میں پیپسی کو کا کہنا تھا کہ نہ تو کمپنی اور نہ ہی ہمارا کوئی برانڈ اس تنازعے میں کسی حکومت یا فوج سے وابستہ ہے۔
فلسطینی نژاد امریکی تاجر زاہی خوری نے رام اللہ میں قائم کوکا کولا بوٹلر نیشنل بیوریج کمپنی قائم کی تھی، جو مغربی کنارے میں کوک فروخت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی کا غزہ میں دو کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا پلانٹ، جو 2016 میں کھولا گیا تھا، جنگ میں تباہ ہو گیا ہے جبکہ ملازمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
خوری نے کہا کہ بائیکاٹ ذاتی پسند کا معاملہ ہے لیکن اس سے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ خود مغربی کنارے میں بھی ان کی فروخت پر مختصر اثر ہوا۔
فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرنے والے خوری نے کہا کہ ’صرف قبضے کے خاتمے سے ہی صورت حال بہتر ہونے میں مدد ملے گی۔‘
اسرائیلی حکومت نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
تاریخی اہداف
بڑی سوڈا کمپنیوں پر مسلم دنیا کے کروڑوں صارفین کی جانب سے دباؤ نیا نہیں ہے۔ 1960 کی دہائی میں جب کوک نے اسرائیل میں ایک فیکٹری کھولی تو اسے عرب لیگ کے بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا، جو 1990 کی دہائی کے اوائل تک جاری رہا اور مشرق وسطیٰ میں کئی سالوں تک پیپسی کو فائدہ پہنچا۔
مارکیٹ ریسرچ فرم گلوبل ڈیٹا کے مطابق مصر اور پاکستان میں کوک، پیپسی سے اب بھی پیچھے ہے۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل میں داخل ہونے والی پیپسی کو خود اس وقت بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے 2018 میں اسرائیل کی سوڈا سٹریم کمپنی کو 3.2 ارب ڈالر میں خریدا۔
حالانکہ حالیہ برسوں میں، نوجوان اور بڑھتی ہوئی آبادی والے مسلم اکثریتی ممالک نے سافٹ ڈرنک کے بڑے برانڈز کو سب سے زیادہ ترقی دی ہے۔
صرف پاکستان میں ہی، کوکا کولا کا کہنا ہے کہ اس نے 2008 کے بعد ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس کے نتیجے میں کئی سالوں تک فروخت میں اضافے کا فیصد دو عددی رہا۔ سکیورٹیز فائلنگز کے مطابق، پیپسی کو بھی اسی طرح کے فائدے حاصل ہوئے۔
تاہم اب یہ دونوں، مقامی برانڈز کے سامنے اپنی پوزیشن کھو رہے ہیں۔
کولا نیکسٹ، جو کوک اور پیپسی کے مقابلے میں سستا ہے، نے مارچ میں اپنا اشتہاری نعرہ تبدیل کرکے ’کیونکہ کولا نیکسٹ ہے پاکستانی‘ کر دیا، جو اس کی مقامی شناخت کو اجاگر کرتا ہے۔
کولا نیکسٹ کی پیرنٹ کمپنی میزان بیوریجز کے سی ای او میاں ذوالفقار احمد نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کولا نیکسٹ کی فیکٹریاں بڑھتی ہوئی طلب کو پورا نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے حجم کے اعداد و شمار شیئر کرنے سے انکار کر دیا۔
ریستورانوں، کراچی کی نجی سکولز ایسوسی ایشن اور یونیورسٹی کے طلبہ نے کوکا کولا کے خلاف اقدامات میں حصہ لیا ہے، جس سے پاکستان میں مقبول میوزک شو کوک سٹوڈیو کی سپانسر شپ کے ذریعے بننے والی مثبت ساکھ ختم ہوگئی ہے۔
مصری کولا وی سیون کے بانی محمد نور نے ایک انٹرویو میں کہا کہ 2023 کے مقابلے میں اس سال مصری کولا وی سیون کی برآمدات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ 2020 میں 28 سال بعد کمپنی چھوڑنے والے کوکا کولا کے سابق ایگزیکٹو نور نے کہا کہ وی سیون اب 21 ممالک میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
نور نے کہا کہ مصر میں، جہاں یہ صرف جولائی 2023 سے دستیاب ہے، فروخت میں 40 فیصد اضافہ ہوا۔
قطر کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں حکومت کے ایسوسی ایٹ پروفیسر پال مسگریو نے متنبہ کیا ہے کہ بائیکاٹ کی وجہ سے صارفین کی وفاداری کو طویل مدتی نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کمپنیوں کی مالی لاگت کا تخمینہ دیے بغیر کہا کہ ’اگر آپ اپنی عادات بدلتے ہیں تو، طویل عرصے تک آپ کو دوبارہ اپنا گاہک بنانا بہت مشکل ہو جائے گا۔‘
بنگلہ دیش میں بیک فائر
بنگلہ دیش میں کوک نے ایک اشتہار شروع کیا، جس میں ایک دکاندار کو فلسطین میں کمپنی کے کاروبار کے متعلق بات کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
تاہم مبینہ بے حسی پر عوامی احتجاج کے بعد، کوک نے جون میں اشتہار واپس لے لیا اور معافی مانگی۔ روئٹرز کے ایک سوال کے جواب میں کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ مہم ’اپنے مقصد کے حصول میں ناکام‘ رہی۔
بنگلہ دیش کے ایک ایڈورٹائزنگ ایگزیکٹیو، جو میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس اشتہار نے بائیکاٹ کو مزید بڑھا دیا ہے۔
دیگر امریکی برانڈز جنہیں مغربی ثقافت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جیسے میک ڈونلڈز اور سٹار بکس کو بھی اسرائیل مخالف بائیکاٹ کا سامنا ہے۔
نیلسن آئی کیو کے مطابق 2024 کی پہلی ششماہی میں مشرق وسطیٰ میں عالمی برانڈز کا مارکیٹ شیئر چار فیصد کم ہوا، لیکن وسیع پیمانے پر دستیاب سوڈا کے خلاف احتجاج زیادہ واضح ہے۔
بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان، مصر اور بنگلہ دیش میں مہنگائی اور معاشی بدحالی نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے پہلے ہی صارفین کی قوت خرید کو کم کر دیا تھا، جس سے سستے مقامی برانڈز زیادہ پرکشش ہو گئے تھے۔
گلوبل ڈیٹا کے مطابق گذشتہ سال پاکستان میں کنزیومر سیکٹر میں کوک کا مارکیٹ شیئر 2022 میں 6.3 فیصد سے کم ہو کر 5.7 فیصد رہ گیا جبکہ پیپسی کا مارکیٹ شیئر 10.8 فیصد سے کم ہو کر 10.4 فیصد رہ گیا۔
مستقبل کے منصوبے
کوکا کولا اور پپسی اب بھی ان ممالک کو اپنے کاروبار بڑھانے کے لیے بہت اہم سمجھتی ہیں، خاص طور پر جب مغربی ممالک میں ان کی فروخت کم ہو رہی ہے۔
بائیکاٹ کے باوجود کوک نے اپریل میں پاکستان میں ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کے لیے مزید دو کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
پاکستان میں کوکا کولا کی بوتلیں بنانے والوں نے مئی میں سرمایہ کاروں سے کہا تھا کہ وہ دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں موجود مواقع کے بارے میں ’مثبت‘ ہیں اور اس نے طویل مدتی عزم کے ساتھ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی ہے۔
ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ حالیہ ہفتوں میں پیپسی کو نے پاکستانی مارکیٹ میں ٹیم سوڈا کے نام سے ایک برانڈ متعارف کروائی ہے، جو روایتی طور پر لیموں کا ذائقہ رکھتا ہے۔ یہ پروڈکٹ اب کولا کے ذائقے میں دستیاب ہے، جس کے لیبل پر ’میڈ اِن پاکستان‘ نمایاں طور پر پرنٹ کیا گیا ہے۔
کمپنیاں اب بھی خیراتی اداروں، موسیقاروں اور کرکٹ ٹیموں کو سپانسر کرکے کوک اور پیپسی برانڈز کو مقامی لوگوں کی روزہ مرہ زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر پال مسگریو کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات کوک اور پیپسی کے لیے اہم ہیں، جو طویل عرصے تک ان ممالک میں اپنی گرفت برقرار رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ انہیں اب مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا: ’آپ اپنے آپ کو ایک اتحادی دکھانے یا اپنی موجودگی ظاہر کرنے کے لیے، ایک کمیونٹی کا حصہ بنانے کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں، اس سے مدد ملتی ہے۔‘