سوات حملہ: سفیروں کی آمد سے صوبائی حکومت کو کیوں لاعلم رکھا گیا؟

سوات پولیس کے ایک سینیئر عہدیدار، جو اس وفد کے سکیورٹی انتظامات میں شامل تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمیں اسلام آباد چیمبر آف کامرس کی جانب سے ایک خط موصول ہوا تھا جس میں ’غیر ملکیوں‘ کی سوات آمد کا بتایا گیا تھا۔

22 ستمبر، 2024 کو سوات میں بم حملے کا نشانہ بننے والی پولیس وین (ریسکیو 1122)

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے سیاحتی مقام مالم جبہ میں گزشتہ روز مختلف ممالک کے سفیروں کے سکیورٹی سکواڈ پر حملہ ہوا تھا، اور انڈپینڈنٹ اردو کو معلوم ہوا ہے کہ سفیروں کی آمد سے صوبائی حکومت کو لاعلم رکھا گیا تھا۔

سفیروں کے ساتھ سکیورٹی میں شامل پولیس وین پر دھماکہ ہوا تھا، جس میں پولیس کے مطابق ایک اہلکار جان سے گیا اور چار زخمی ہوئے، تاہم 12 ممالک کے تمام سفیر محفوظ رہے۔

یہ سفیر سوات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی دعوت پر سوات گئے تھے، جہاں سوات کے سیاحتی مقام مالم جبہ کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل میں ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔

سوات پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق ان سفیروں کا تعلق انڈونیشیا، پرتگال، قازقستان، بوسنیا و ہرزیگووینا، زمبابوے، روانڈا، ترکمانستان، ویتنام، ایران، روس اور تاجکستان سے تھا۔

کیا سوات آنے سے قبل پولیس اور صوبائی حکومت کو آگاہ کیا گیا تھا؟

سوات پولیس کے ایک سینیئر عہدیدار، جو اس وفد کے سکیورٹی انتظامات میں شامل تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمیں اسلام آباد چیمبر آف کامرس کی جانب سے ایک خط موصول ہوا تھا جس میں ’غیر ملکیوں‘ کی سوات آمد کا بتایا گیا تھا۔

خط میں عہدیدار کے مطابق لکھا تھا: ’ہمارے چیمبر کا ایک وفد، جس میں غیر ملکی بھی شامل ہیں، سوات کا دورہ کرے گا۔‘

تاہم، عہدیدار نے بتایا کہ اس خط میں یہ ذکر نہیں تھا کہ یہ غیر ملکی وفد کون ہوگا، اور نہ یہ ذکر تھا کہ اس میں کسی ملک کا سفیر شامل ہے، بلکہ صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ غیر ملکی وفد ہوگا۔

انہوں نے مزید بتایا، ’کسی بھی سفیر کے آنے سے پہلے صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا جاتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ ایک این او سی جاری کیا جاتا ہے۔ اسی این او سی کے بعد سفیروں کے لیے سکیورٹی کا ایک الگ پروٹوکول ترتیب دیا جاتا ہے۔‘

’غیر ملکیوں کو جو سکیورٹی دی جا رہی تھی، ہم نے اسی طرح سکیورٹی فراہم کی تھی اور راستے میں بریکوٹ کے مقام پر ایک سٹوپا دیکھنے بھی یہ وفد رکا، جہاں ہم نے انہیں باقاعدہ سکیورٹی فراہم کی تھی۔‘

عہدیدار نے بتایا،’کسی بھی غیر ملکی کے سوات داخلے پر لنڈاکے چیک پوسٹ پر انٹری کی جاتی ہے، لیکن اس وفد نے وہاں انٹری نہیں کی تھی۔‘

اس کے بعد، عہدیدار کے مطابق ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ وفد ایک ہی گاڑی میں مالم جبہ جائے گا، لیکن بعد میں اس پلان کے برعکس یہ مختلف گاڑیوں میں مالم جبہ روانہ ہوگئے۔ تاہم، ہمارے سکیورٹی سکواڈ کی دو وین ان کے ساتھ موجود تھیں، جن میں ایک وفد کی گاڑیوں سے آگے اور ایک پیچھے جا رہی تھی۔

یہ معاملہ سوات سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر امجد علی نے گزشتہ روز صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اٹھایا۔

اسمبلی فلور پر تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد علی نے بتایا کہ ’عجیب ماجرا ہے کہ 12 ممالک کے سفارت کار سوات جاتے ہیں اور انتظامیہ کو پتہ بھی نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے کہا، ’سفیروں کی آمد سے مقامی میڈیا، ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت مکمل طور پر لاعلم تھی، جبکہ صرف ڈی پی او کو پتہ تھا اور وفاقی حکومت چپکے سے انہیں سوات لے کر جا رہی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر امجد علی کے مطابق یہ ’شرم کی بات ہے کہ وفاقی حکومت ایسی حرکت کر رہی ہے اور یہ بھی پتہ نہیں کہ وفد کے پاس این او سی تھا یا نہیں، سکیورٹی کلیئرنس تھی یا نہیں، کیونکہ این او سی صوبائی حکومت کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے۔

اس معاملے پر سوات پولیس کے ضلعی سربراہ (ڈی پی او) ڈاکٹر زاہد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ بات درست ہے کہ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کسی ملک کا سفیر آ رہا ہے، بلکہ اتنا بتایا گیا تھا کہ غیر ملکی وفد ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’ہم نے باقاعدہ طور پر اس وفد کو سکیورٹی فراہم کی تھی اور اب بھی دھماکہ ہمارے سکواڈ کی گاڑی پر ہوا ہے، جس میں ہمارا ایک جوان شہید ہوا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ باقاعدہ سکیورٹی کی وجہ سے وفد میں شامل تمام افراد محفوظ رہے اور انہیں باحفاظت اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔

سوات چیمبر آف کامرس کا موقف

یہ وفد سوات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی میزبانی میں سوات آیا تھا اور اب چیمبر آف کامرس کا موقف ہے کہ وفد کو باقاعدہ سکیورٹی نہ دینے کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔

سوات چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر راحت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وفد آنے سے پہلے باقاعدہ ہماری کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سے ملاقات ہوئی تھی، جس میں انہیں وفد کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے چیمبر کی طرف سے کمشنر کو خط لکھا تھا، جس میں سفیروں کی آمد کا ذکر موجود تھا، لیکن کمشنر نے ہم سے این او سی کے بارے میں پوچھا۔‘

راحت علی کے مطابق، ’ہم نے کمشنر کو بتایا کہ سفیر جب آتے ہیں تو عموماً انہیں این او سی جاری کیا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد 12 ممالک کے سفیروں کو کسی بھی ضلعی انتظامیہ کے افسر نے ریسیو نہیں کیا۔‘

راحت علی نے بتایا، ’یہ سفیر مختلف ترقیاتی پیکجز لے کر آئے تھے، لیکن کسی بھی صوبائی حکومت کے عہدیدار یا ضلعی انتظامیہ نے انہیں باقاعدہ سکیورٹی فراہم کی اور نہ ہی ان کی باقاعدہ میزبانی کی۔‘

راحت علی نے بتایا کہ ’راستے میں دھماکے کے بعد واپسی پر سفیروں کی گاڑیوں سے ڈپلومیٹک نمبر پلیٹ ہٹائی گئی اور دو دو یا تین تین گاڑیوں کو ہم نے باحفاظت سوات سے واپس بھیجا۔ ہر سفیر کے پاس اپنی گاڑی تھی اور وہ اپنے خاندان کے ہمراہ آئے تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان