ہم اب کالے کوٹ اور کالے روب کی دھمکی میں نہیں آئیں گے: بلاول بھٹو

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیر کو کہا ہے کہ آئین سازی کے معاملے پر ہم اس بار ہم نہ کالے کوٹ نہ کالے روب کی دھمکی میں آئیں گے۔

30 ستمبر، 2024 کی اس تصویر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران تقریر کرتے ہوئے(میڈیا سیل پی پی پی ایکس)

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیر کو کہا ہے کہ آئین سازی کے معاملے پر ’اس بار ہم نہ کالے کوٹ نہ کالے روب کی دھمکی‘ میں آئیں گے۔

کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران وکلا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’نہ صرف آئینی عدالت بنانا ضروری ہے بلکہ عدالتی تقرریوں کے نظام میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ اس بار ہم نہ کالے کوٹ نہ کالے چغے کی دھمکی آئیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ حق صرف عوام کو ہے وہ مجھے آئین سازی کرنے پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں غلط کر رہا ہوں یا صحیح کر رہا ہوں اور وہ مجھے الیکشن کے وقت بتائیں گے۔‘

انہوں نے ماضی کی بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ اٹھارویں ترمیم کے موقعے پر ہمیں عدلیہ سے کہا گیا کہ ’آپ یہ واپس لیں ورنہ ہم پوری اٹھارویں ترمیم جس میں آئین کو بحال کیا گیا اس کو ہم کالعدم قرار دے دیں گے۔‘

ان کے مطابق: ’ہم نے 19ویں ترمیم زبردستی ان کے کہنے پر پاس کروائی۔ ججوں نے اپنے رولز کے ذریعے پارلیمنٹ کی کمیٹی کا اختیار ختم کر دیا جبکہ رولز کے ذریعے آئینی ترمیم بھی زبردستی کروائی گئی۔‘

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’یہ عدالتی نظام لوگوں کے لیے نہیں صرف ججز کے لیے ہے۔

’عدالتی میرٹ کا یہ حال ہے کہ مجھے ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دلوانے کے لیے 50 سال انتظار کرنا پڑا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی پریشر میں آ کر ایک کام جو ضروری ہے وہ نہ کریں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی یہ نہیں کہتی کہ ہم ایک دن میں ملک کے تمام مسائل حل کر دیں گے، معیشت اور دہشتگردی کے مسائل کا خاتمہ کردیں گے۔

’عدالت میں ایسی ریفارمز لے آئیں گے کہ راتوں رات عوام کو انصاف ملنے لگے گا، لیکن ایسے وقت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کوشش یہ ہی ہے کہ اپنے منشور اور نظریہ کے مطابق عوام کے لیے کام کرے۔‘

ان کے مطابق: ’جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے عدالتی ریفامز کی تجویز دی تھی تو تب ہم نے ججز کی تقرری کے حوالے سے ایک نظام واضح کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس نظام کے تحت تقرری کے لیے امیدوار ججز و وکلا دیتے مگر فیصلہ پارلیمان کی کمیٹی کرتی کہ جج کون بنے گا جس میں اپوزیشن اور حکومت کے ارکان بھی شامل ہوتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں آئینی عدالتوں کے قیام کے ساتھ ساتھ ججوں کی تقرری کے نظام کو بھی دیکھنا ہو گا۔

’ورنہ آپ کوئی بھی نئی کورٹ بنائیں یا نئی بینچ بنائیں اگر ایسے ہی تقرری کرتے رہے تو پھر ایسا ہی ہمارا نظام چلتا رہے گا۔‘

اس سے قبل کو کراچی میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مجوزہ آئینی ترمیم میں آئینی عدالت اور دیگر عدالتوں کی ججز کی عمر کے بارے میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’جہاں تک ججز کی عمر کا سوال ہے تو میرا خیال آپ کی سوچ سے ملتا جلتا ہے، یقیناً اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہر پارٹی کا اپنا اپنا موقف ہے لیکن میری اپنی پارٹی کا موقف یہ ہے کہ خاص طور پر جو آئینی عدالت بننے جا رہی ہے اس میں ججز کی عمر کی شرط شاید متنازع ہو جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست