کہانی کے سب کردار ایک دوسرے کے سامنے آ چکے ہیں۔ ہدایت کار، کہانی کار، ڈراما ساز اپنے اپنے کرداروں کو جان کی بازی لگانے کا کہہ چُکے ہیں۔ یوں سمجھیے اختیار کے اس کھیل میں کردار اہم اور اقتدار بے معنی ہو چکا ہے۔
بقا کی یہ لڑائی دلچسپ بھی ہے اور خطرناک بھی۔ سیاسی اور ریاستی زور آزمائی کے مقابلے میں کس کے بازو میں کتنا دم ہے یہ ہاتھوں کو بھی نہیں معلوم، پہلے آنکھ کون جھپکے گا پتلیاں بھی بے خبر۔
جھگڑا آئینی ترمیم کا نہیں شخصیت پسندی کا ہے۔ اب کھیل شخصیات کے اردگرد کیوں ہے یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ حکومت پر الزام ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو توسیع دینا چاہتی ہے، جب کہ عمران خان جسٹس منصور علی شاہ کی پشت پر ہیں۔ یوں دونوں دھڑے شخصیات کے گرد ہیں۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک دھڑا اگر منصور علی شاہ کو روکنا چاہتا ہے تو دوسرا دھڑا کیوں چاہتا ہے کہ منصور علی شاہ ہی چیف جسٹس بنیں۔ شاہراہ دستور کی بڑی عمارت کے دو بڑے ’مدت ملازمت‘ میں توسیع کے حامی تھے تو کس طرح ایک شخصیت عین وقت پر دوسرے دھڑے میں شامل ہوئی۔
یہ ’تبدیلی‘ اصولوں پر تھی یا کوئی اور ’اصول‘ کارفرما ہوئے؟ جو شخصیت باہم متفق کرنے میں کردار ادا کر رہی تھی ان سے کیا گیا وعدہ کیا ہوا، یہ کہانی بھی دلچسپ ہے۔
آئینی پیکج کی ڈیل میں سب کچھ تھا مگر جن سے ووٹ لینا تھے ان سے ’مشورہ‘ شامل نہ تھا اور یوں وہ جج صاحبان جو گھر کے بھیدی تھے اُنہوں نے ہی لنکا ڈھا دی۔
مقتدرہ کے لیے آئینی عدالت اور فوجی عدالتیں ضروری اور مجبوری بن چکی ہیں تو دوسری جانب ان عدالتوں کو روکنا ’کرو یا مرو‘ کی ضد۔ ایک طرف عمران خان منہ پر ہاتھ پھیر کر ان ترامیم کو روکنے کے درپے تو دوسری جانب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اپنا پورا زور لگانے کو تیار۔
یوں سمجھیے ڈی چوک کی طاقت کا استعمال ’ڈی ڈے‘ سے بچنے کی کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت شنگھائی تعاون سے پہلے اس کوشش میں ہو گی کہ آئندہ ایک ہفتے کو ضائع نہ کیا جائے۔ ویسے بھی علی امین گنڈا پور ابھی ابھی ’کامیاب دورے‘ سے پشاور واپس لوٹے ہیں۔
دوسری جانب عمران خان جانتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس حکومت کو دباؤ میں لانے کا ایک سُنہری موقع ہے۔ امن و امان کے سبب تنظیم میں شرکا کی شمولیت خطرے میں ہوئی تو کامیابی جبکہ مقتدرہ کو بات چیت کے لیے رضامند کرنے کا سنہری موقع ہے۔
عمران خان جانتے ہیں کہ آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ میں موجود ان کی مٹھی میں بند طاقت ٹوٹ جائے گی، جب کہ متوقع تبدیلوں کی صورت مطلوبہ نتائج کا حصول بھی ممکن ہے۔ اس بات کا اظہار وہ کر چکے ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کے آتے ہی انتخابات کالعدم قرار دیے جا سکتے ہیں یا کم از کم چار حلقے کھل جانے سے مریم نواز کی حکومت ختم ہو سکتی ہے، جب کہ ایسا نہ ہونے کی صورت ان کی رہائی کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور کی صوبائی حکومت کو قابو میں لانے کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے۔ گورنر راج کا آپشن موجود ہے تاہم یہ بیک فائر کر سکتا ہے۔
وزیراعلی پر نااہلی کی تلوار بھی لٹک سکتی ہے، جب کہ آئین کے آرٹیکل 149 کا استعمال عمل میں آسکتا ہے، جس کے مطابق وفاق صوبوں کو مخصوص حالات میں کنٹرول کر سکتا ہے۔ گنڈا پور صاحب کے حالیہ اقدامات اور صوبے میں امن و امان کی صورت حال اس کے امکانات بڑھا رہی ہے۔
برا ہو وقت کا جو ریت کی مانند ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔ ایک جانب شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس تو دوسری جانب 25 اکتوبر کی جادوئی تاریخ۔ اس تاریخ کے گرد گھومتے سورج، چاند اور ڈوبتے اُبھرتے ستارے۔
اکتوبر کی 25 کے بعد کوئی ایک ستارہ ابھرے گا اور کوئی ایک ڈوبے گا اور اس سے قبل کہانی خطرناک موڑ اختیار کر سکتی ہے۔
نوٹ: تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔