امریکہ نے ایک بار پھر آزادی اظہار رائے کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئین اور قانون کو یقینی بنانے کے لیے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام کرے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے آٹھ اکتوبر کو پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے گذشتہ ہفتے سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہروں کے دوران سڑکوں کی بندش، انٹرنیٹ و موبائل فون سروس کی معطلی اور پاکستان میں امریکی شہریوں کے لیے جاری کیے گئے سکیورٹی الرٹ کے تناظر میں سوال کیا۔
جس پر میتھیو ملر نے جواب دیا کہ ’دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہم آزادی اظہار اور پر امن اجتماع کی حمایت کرتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہم مظاہرین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پر امن طریقے سے احتجاج کریں اور تشدد سے باز رہیں۔‘
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ’ہم پاکستانی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام کریں اور پاکستان کے قوانین اور آئین کے احترام کو یقینی بنائیں اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کام کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چار اکتوبر کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی کال پر ان کی جماعت نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر احتجاج کا اعلان کیا تھا، تاہم ملائیشین وزیراعظم کے جاری دورے اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی تیاریوں کے سلسلے میں وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے شہر میں کسی بھی قسم کے احتجاج کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا۔
اس سلسلے میں اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستوں اور ڈی چوک آنے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا، شہر میں فوج اور رینجرز کو تعینات کیا گیا جبکہ تین دن تک موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل رہی۔
دوسری جانب پشاور سے اپنے قافلے کے ہمراہ اسلام آباد آنے والے پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور جب شہر میں داخل ہوئے تو ان کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی جبکہ مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک اہلکار کی موت بھی واقع ہوئی۔
تین روزہ احتجاج کے بعد بالآخر سات اکتوبر کو اسلام آباد میں سڑکیں اور شاہراہیں ٹریفک کے لیے کھول دی گئیں، جس کے بعد معمولات زندگی پوری طرح بحال ہو گئ۔
چینی انجینئرز پر حملے کی مذمت
اس سے قبل ترجمان دفتر خارجہ سے کراچی ایئرپورٹ پر چینی انجینیئرز پر حملے سے متعلق بھی سوال کیا گیا، جس پر انہوں نے کہا: ’ہم کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہونے والے مہلک حملے کی مذمت کرتے ہیں اور لوگوں کے زخمی ہونے اور جانوں کے ضیاع پر ہمیں گہرا رنج ہے۔ ہم متاثرہ افراد کے لیے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔‘
چھ اکتوبر کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک دھماکے میں دو چینی شہری جان سے چلے گئے تھے جبکہ ایک چینی شہری اور ایک خاتون سمیت کئی پاکستانی شہری زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ خودکش تھا، جسے مجید بریگیڈ کے شاہ فہد عرف آفتاب نے سر انجام دیا۔
چینی سفارت خانے نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی کے قافلے پر ایئرپورٹ کے قریب حملہ کیا گیا۔
سفارت خانے نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ ’چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کی حفاظت کو مکمل طور پر یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی حملے میں چینی شہریوں کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا تھا۔
جبکہ دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’دہشت گردی کی یہ مذموم کارروائی نہ صرف پاکستان پر بلکہ پاکستان اور چین کی پائیدار دوستی پر بھی حملہ ہے۔ ہم مجید بریگیڈ سمیت اس بزدلانہ حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
مزید کہا گیا کہ ’پاکستان کے سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں اور ان کے سہولت کاروں کو پکڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔‘
دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان چینی شہریوں، ترقیاتی منصوبوں اور پاکستان میں چینی اداروں کی حفاظت اور سلامتی کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتا ہے اور دہشت گردی کی قوتوں کو شکست دینے کے لیے اپنے چینی بھائیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔‘