پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پہلے صوابی اور لاہور میں جلسے منعقد کیے اور گذشتہ روز راولپنڈی میں احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے قیادت کی۔
تمام جلسوں اور احتجاجی مظاہروں میں خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور اور دیگر صوبائی قیادت پیش پیش تھے، اور اس کی وجہ پی ٹی آئی کی صوبے میں حکومت ہے۔
ان جلسوں اور جلوسوں کے لیے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مطابق سرکاری وسائل کا استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ گذشتہ روز احتجاجی مظاہرے میں پی ٹی آئی کارکنان پر شیلنگ کے بعد علی امین گنڈاپور نے ’انقلاب‘ کا اعلان بھی کیا تھا۔
علی امین گنڈاپور نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ ’اب بہت ہو گیا اور اب گولی کا جواب گولی سے دیا جائے گا، جبکہ قبائلی اضلاع میں پارٹی کارکنان کو متحد کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔‘
اس سارے جلسے جلوس کے ماحول میں پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی حکومت بھی چلا رہی ہے اور انہیں دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہے، لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنے اصل کام سے توجہ ہٹا کر صوبے کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔
نثار باز عوامی نیشنل پارٹی کے خیبر پختونخوا اسمبلی میں رکن ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بنیادی مسئلہ تو صوبے کی امن و امان کا ہے، جس کی ذمہ داری وفاق اور صوبے دونوں کی ہے۔
تاہم نثار باز کے مطابق صوبائی و وفاقی حکومت امن و امان کی صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے اور حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اب پولیس نے بھی دھرنے اور مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا بڑا مسئلہ معیشت کا ہے اور سارے شعبے معاشی بحران کا شکار ہیں اور قرضوں پر قرضے لیے جا رہے ہیں۔
نثار باز کے مطابق صوبائی اور وفاقی حکومت کی سیاسی مخالفت کی وجہ سے صوبائی فنڈز اور واجب الادا رقوم بھی وفاق نہیں دے رہا ہے، جس میں نیٹ ہائیڈل پرافٹ بھی شامل ہے۔
نثار باز نے کہا، ’پی ٹی آئی جلسے اور جلوس کر رہی ہے اور صوبہ اللہ کے توکل پر چل رہا ہے، جبکہ عوام کو سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں۔‘
مبصرین کیا کہتے ہیں؟
عارف حیات، پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور 2013 سے اسمبلی اور پی ٹی آئی کے معاملات کو کور کر رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا صوبہ 2013 سے احتجاجی موڈ میں ہے، تاہم موجودہ حکومت سے پہلے کچھ نہ کچھ صوبے کی ترقی کے لیے بھی کیا جاتا تھا۔
عارف حیات کے مطابق اب صورتحال یکسر مختلف ہے اور موجودہ حکومت نے صرف جلسے اور جلوسوں پر فوکس رکھا ہوا ہے اور اس کے لیے سرکاری وسائل کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
عارف حیات نے کہا، ’اسمبلی کا آٹھواں اجلاس ابھی جاری ہے اور میں سارے اجلاسوں کو کور کر چکا ہوں، لیکن اب تک پی ٹی آئی والے اسمبلی میں نو مئی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقاریر سے تھکتے نہیں ہیں، اور عوامی مفاد میں ابھی تک کوئی ایک ٹھوس منصوبہ یا قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔‘
ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے عارف حیات نے کہا کہ صوبے میں پہلے سے جاری منصوبے کچھ حد تک چل رہے ہیں، لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے اب تک کوئی عوامی مفاد میں نیا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کا کیا موقف ہے؟
پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر اور سینیئر رہنما شوکت یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی آئی ایک جمہوری جماعت ہے اور عوام نے ہمیں ووٹ دیا ہے۔
شوکت یوسفزئی کے مطابق وفاق اور پنجاب میں ہم سے حکومت چھینی گئی اور ہمیں مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے، ہمیں گرفتار کیا جا رہا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شوکت یوسفزئی نے کہا، ’ہمیں پاکستان کی بھی فکر ہے اور عوامی رائے کے برعکس ہم سے حکومت چھینی گئی۔ صوبے میں ہماری پالیسیاں ہیں اور ان پر عملدرآمد ہو رہا ہے، لیکن ہمیں پاکستان کی بھی فکر ہے اور یہ کہنا کہ صوبے میں حکومت ہے اور ہم پاکستان کے معاملات پر خاموش رہیں، زیادتی ہو گی۔‘
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ ہم بالکل صحیح سمت میں چل رہے ہیں اور ہماری جدوجہد انسانی آزادی اور آئین کے لیے ہے، جبکہ دوسری جانب ہمیں آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی، مہنگی بجلی، گیس کی قیمتوں اور دیگر مسائل میں پی ٹی آئی خاموش نہیں رہ سکتی ہے اور لوگ پاکستان سے بھاگ رہے ہیں۔
شوکت یوسفزئی نے کہا، ’سرحد پار دہشت گردی کنٹرول کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور ان سے یہ کنٹرول نہیں ہو رہا ہے، اور الزام ہم پر لگایا جا رہا ہے کہ امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے لوگ بھاگ رہے ہیں۔‘
یاد رہے کہ جنوبی اضلاع میں گزشتہ کچھ عرصے سے امن و امان کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے، جہاں پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لکی مروت میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے کچھ دن پہلے پولیس نے ایک احتجاجی دھرنا بھی دیا تھا، جس میں اختیارات پولیس کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔