خیبر میں جاری پشتون جرگے کے مقاصد کیا ہیں؟

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے مطابق انہوں نے وفاقی حکومت سے پشتون جرگے کے سلسلے میں اختیار لے لیا ہے اور جرگہ پر امن طریقے سے ہو گا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی چار اکتوبر 2024 کی ایک تصویر (علی امین گنڈاپور آفیشل فیس بک پیج)

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیر اہتمام آج (جمعے کو) ’پشتون جرگہ/عدالت‘ کے نام سے تین روزہ جرگے کا آغاز ہونے جا رہا ہے، جس کی میزبانی وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کریں گے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے جمعرات کی شب ضلع خیبر کے علاقے جمرود پی ٹی ایم کی مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے وفاقی حکومت سے اس سلسلے میں اختیار لے لیا ہے اور اب جرگہ ہو گا اور وہ خود اس کی میزبانی کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے علاقے میں ایک جرگہ ہو رہا ہے لیکن وفاقی حکومت نے براہ راست اقدامات اٹھائے، جن کا انہیں آئین میں اختیار حاصل ہے، لیکن ہر اختیار استعمال کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اب فیصلہ ہوا ہے کہ جرگہ ہو گا اور وفاقی حکومت سے میں نے اختیار لے لیا ہے کہ میرا صوبہ ہے، اس میں آپ مداخلت نہ کریں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ جرگہ پر امن طریقے سے ہو گا اور ایک قرارداد کے ذریعے تمام جائز مطالبات پیش کیے جائیں گے۔‘

بقول علی امین گنڈا پور: ’مطالبات ان کا حق ہے۔ ان کا مقدمہ میں لڑوں گا اور ان کے مطالبات منوائیں گے۔ رکاوٹیں ہٹانے میں ویسے بھی میں ماہر ہوں۔‘

پی ٹی ایم کے مطابق جرگے میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں، پشتون بزرگوں (مشران)، وکلا، صحافی اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ 

11 اکتوبر کے اس جرگے کا اعلان تقریباً دو ماہ قبل کیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے ضلع خیبر کی تحصیل جمرود میں ایک گراؤنڈ کا انتخاب بھی کیا گیا، تاہم جرگے کے منتظمین پر گذشتہ ہفتے کریک ڈاؤن کیا گیا، جو تین روز تک جاری رہا۔

کریک ڈاؤن کے بعد وفاقی حکومت نے پی ٹی ایم پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس کا نام کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے پی ٹی ایم رہنماؤں کے نام بھی شیڈول فور میں شامل کر دیے۔

گذشتہ روز بھی جرگے کے مقام پر کریک ڈاؤن کے دوران ہسپتال اور پی ٹی ایم ذرائع کے مطابق تنظیم کے چار کارکن مبینہ طور پر پولیس فائرنگ کے نتیجے میں جان سے گئے اور 13 زخمی ہوئے۔ 

پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے کریک ڈاؤن کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا اسلام آباد کی ایما پر کیا گیا۔ صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم چونکہ کالعدم ہے، لہذا کالعدم تنظیم کو کسی بھی اجتماع کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ 

دوسری جانب پی ٹی آئی کے مرکزی سیاسی کمیٹی نے پی ٹی ایم پر پابندی اور کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے متعدد قائدین نے پی ٹی ایم کے جرگے میں شرکت کا اعلان کیا تھا۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے جمعرات (10 اکتوبر) کو پی ٹی ایم کے معاملے پر ایک سیاسی جرگہ بلایا، جس میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی جبکہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بھی شریک ہوئے۔ اس موقعے پر ایک مذاکراتی جرگہ تشکیل دیا گیا، جس کا مقصد پی ٹی ایم سے مذاکرات کا آغاز تھا۔

مذاکراتی جرگے نے ضلع خیبر میں پی ٹی ایم قائدین سے ملاقاتیں کیں، جس کے نتیجے میں تنظیم کو جرگے منعقد کرنے کی اجازت دے دی گئی، جس کا 11 اکتوبر کو آغاز ہو رہا ہے۔

جرگے کا ایجنڈا

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے خیبر میں جان سے جانے والے کارکنوں کی نماز جنازہ میں شرکت کے دوران اپنے خطاب میں بتایا تھا کہ جرگے کے لیے پہلے سے کوئی ایجنڈا موجود نہیں ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’جرگہ پی ٹی ایم کا نہیں بلکہ پشتونوں کا ہے۔ پشتون ہی مل بیٹھ کر اپنے مسائل پر بات کریں گے اور وہ جو فیصلہ کریں گے، وہی ہمیں قبول ہو گا۔‘

تاہم پی ٹی ایم کی جانب سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق 11 اکتوبر کو صبح کی نشست میں جرگہ شرکا کو گذشتہ دو دہائیوں میں پشتون سر زمین پر جنگ کے نقصانات، لاپتہ افراد کے مسئلے، نقل مکانی اور اس خطے کے معاشی حالات پر بریفنگز دی جائیں گی۔ 

جرگے کے شرکا کے سامنے جنگ سے متاثرہ افراد اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کریں گے، جب کہ ان ہی بریفنگز کی بنیاد پر آئندہ سیشنز کے لیے ایجنڈا تیار کیا جائے گا۔ 

دوسرا دن

شیڈول کے مطابق 12 اکتوبر کو جرگے کے دوسرے دن بند کمرے میں پشتون آبادی والے اضلاع سے سیاسی جماعتوں، خواتین، یونینز، طلبہ اور وکلا پر مشتمل 35 گروپ نشستیں منعقد کریں گے۔ 

ہر گروپ پشتونوں کو درپیش چیلنجز، زمینی تنازعات، تعلیم اور سیاسی نمائندگی پر بحث کرے گا اور پر رپورٹس منتظمین کو پیش کریں گے۔ 

تیسرا دن 

جرگے کے تیسرے دن (13 اکتوبر کو) تمام گروپس کی سفارشات پر بات کی جائے گی اور ان کے ممکنہ حل کی سٹریٹیجی بھی پیش کی جائے گی۔

انہی گروپس سے انتخابی عمل کے ذریعے پشتون قومی جرگے کی آرگنائزنگ کمیٹی کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا، جو مستقبل میں تحریک کو لے کر چلے گی۔ 

جرگے کے آخری مراحل میں اہم رہنما اپنے خطابات میں مستقبل کا لائحہ عمل پیش کریں گے اور فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے طریقہ کار بھی پیش کیا جائے گا۔

پشتون جرگے کے ترجمان عبدالصمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جرگے کے لیے تمام تر انتظامات بہتر طریقے سے کیے گئے تھے لیکن ہمیں بے جا تنگ کیا جا رہا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’پی ٹی ایم پر پابندی سے جرگے پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ پابندی سے پہلے بھی ہمیں تنگ کیا گیا ہے۔ ہمارے کارکنوں کو مارا اور جیلوں میں ڈالا گیا تو مزید پابندی سے ریاست ہمارے ساتھ کیا کر سکتی ہے۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان