یہ صحافی نہیں ٹک ٹاکر ہیں؟

ٹریننگ میں ایک سوشل میڈیا صحافی نے بتایا کہ وہ چند سال قبل مقامی یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی پر رپورٹ کر رہی تھیں کہ سکیورٹی نے ان پر حملہ کردیا اور اتنا مارا کہ ڈاکٹرز کے مطابق ان کا زندہ رہنا معجزہ ہے۔

پاکستانی کمپیوٹر صارفین 29 دسمبر 2012 کو کوئٹہ میں یوٹیوب پر موجود ہیں۔ پاکستان نے ان دنوں یوٹیوب تک رسائی محدود کی ہوئی تھی (بنارس خان/ اے ایف پی)

سوشل میڈیا جرنلسٹس یا جن کو عام فہم میں یو ٹیوبرز بھی کہا جاتا ہے ان کی اپنی ہی دنیا ہے۔ وہ اپنےآپ کو صحافی کہلانے پر بضد ہیں۔

وہ وہی کام کرنا چاہتے ہیں جو کہ پروفیشنل اور فل ٹائم صحافی کرتا ہے اور کافی حد تک سوشل میڈیا صحافی صحافت کر بھی رہے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔

حال ہی میں جنوبی پنجاب، اندرون سندھ، خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان میں سوشل میڈیا جرنلسٹس کو تربیت دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے اپنی اپنی مشکلات بتائیں اور کیسے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ اپنی رپورٹس ترتیب دیتے ہیں۔

لیکن اگر میں یہ کہوں کہ ان میں 90 فیصد کو یہ معلوم نہیں تھا کہ غلط خبر کرنے اور افواہ کی بنیاد پر خبر کرنے یا اشتعال انگیزی پھیلانے وغیرہ پر ان پر کن قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ان کو جب قوانین کے حوالے سے بتایا گیا تو کئی سوشل میڈیا جرنلسٹس نے بار بار ایک ہی سوال کیا کہ کیا ان قوانین کا اطلاق ان پر بھی ہو گا۔

اگر وہ آزادی رائے کے حوالے سے وی لاگ میں اپنی رائے دینے کے حقدار ہیں تو ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کون کون سے ایسے قوانین ہیں جن کی گرفت میں وہ آ سکتے ہیں نیز یہ کہ اگر وہ غلط خبر کو مزید پھیلائیں گے تو ان کی ویڈیو سے اشتعال انگیزی بھڑکے گی۔

دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ان کا یہ تھا کہ تمام نہیں لیکن کافی حد تک سوشل میڈیا جرنلسٹس ایسی ویڈیوز کے حق میں تھے جن سے ان کو جلدی سے جلدی زیادہ سے زیادہ ہٹس مل سکیں اور وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے رقم کمانے لگ جائیں۔

لیکن ایسا کرنے میں ان کو خطرہ مول لینے میں کوئی عار نہیں تھا، ان کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ ایسی خطرناک ویڈیوز کچھ ہٹس تو لا سکتی ہیں لیکن یہی خطرناک ویڈیوز جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک سوشل میڈیا صحافی نے بتایا کہ وہ کافی عرصے بعد دوبارہ سے اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کام کرنا شروع کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ تحقیقاتی رپورٹنگ کرتی ہیں اور چند سال قبل وہ مقامی یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی پر رپورٹ کر رہی تھیں، اسی سلسلے میں جب یونیورسٹی میں انٹرویوز کر رہی تھی تو یونیورسٹی کی سکیورٹی نے ان پر حملہ کردیا اور اتنا مارا کہ ڈاکٹرز کے مطابق ان کا زندہ رہنا ہی ایک معجزے سے کم نہیں۔

انہیں کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ صحافی نہیں ہیں، بس ایک ٹک ٹاکر ہیں جو یونیورسٹی کو بدنام کرنے کے لیے کیمرہ اور مائک پکڑ کر آ گئی ہیں۔ لیکن وہ اب بھی پرعزم ہیں کہ وہ دوبارہ سے تحقیقاتی رپورٹنگ کریں گی اور صوبے کی مشکلات کو اجاگر کریں گی۔

ان کو پیشہ ورانہ صحافی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ سوشل میڈیا صحافی ہی ہیں جن کی بہت سی خبریں مرکزی دھارے کے میڈیا میں چلتی ہیں۔

ان کو تھوڑی بہت تربیت کی ضرورت ہے، وہ بے شک ایک یا دو ورکشاپس تک ہی محدود ہو اور یا لمبے عرصے کے لیے منعقد ہو، لیکن یہی واحد ذریعہ ہے جس سے ان کی تربیت کی جا سکتی ہے اور مستند رپورٹس بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔

نوٹ: تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ