پاکستان میں 2028 تک ’ربا‘ کا خاتمہ ممکن یا محض ایک نعرہ؟

ماہرین کے خیال میں 26 ویں ترمیم کے تحت 2028 تک ربا کے خاتمے کوآئین کا حصہ بنانا حکومت کے لیے مسائل کی وجہ نہیں بن سکتا۔

راولپنڈی میں ایک شہری 15 جولائی 2023 کو ایک بینک کے باہر بیٹھا ہے (فائل فوٹو اے ایف پی)

پاکستان میں پیر کو منظور ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم میں اسلامی بینکاری کو فروغ میں مدد کی غرض سے یکم جنوری 2028 تک ملکی معیشت سے ’ربا‘ یا سود کو ختم کرنے کی قانون سازی بھی شامل ہے۔

وفاقی شرعی عدالت پہلے ہی 2022 میں حکومت کو پاکستانی معیشت سے 2027 تک اسلامی احکامات کے مطابق سود کے نظام کو ختم کرنے سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اب سود کے خاتمے کو آئین میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اگر اس پر عمل نہیں ہوتا تو کیا یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی اور اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟ 

اسی حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یکم جنوری 2028 تک آئین کے مطابق سود کا نظام ختم نہ ہوا تو کوئی بھی اٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور یہ صورت حال ایک پورا آئینی بحران پیدا کر دے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ربا کے خاتمے میں سنجیدہ ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت کو وزارت خزانہ میں فوکل پرسنز مقرر کرنا ہوں گے، جو یقینی بنائیں کہ 2028 تک سود کا خاتمہ ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وفاقی شرعی عدالت نے پہلے ہی سود کو ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھا لیکن اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیلیں دائر کی گئیں، جن کی وجہ سے فیصلے پر عمل درآمد رک چکا ہے۔

’اس وجہ سے اس وقت جے یو آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس سے یہ لگتا ہے کہ جے یو آئی نے یہ سوچا کہ اسے ایک آئینی کوور دے دیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے بینکوں میں بہتری آ گئی ہے اور وہ اسلامک ٹرانزیکشن کر رہے ہیں، جب کہ باقی رہ جانے والوں میں بھی اسلامک بینکنگ کے الگ کاؤنٹرز کھولے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت کے سامنے یہ سوالات آئے تھے کہ سود کا نام تبدیل کر کے کسی اور طریقے سے اس کو جاری رکھا جائے، جس کا جواب دیا گیا کہ جس طرح سی پیک کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے بلا سود نظام سے اتفاق کیا، بالکل اسی طرح ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف میں بھی بلا سود بینکاری کی گنجائش موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بلا سود بینکاری کے بینکس قائم ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کا 26 ویں آئینی ترمیم کا خیر مقدم

وفاقی شرعی عدالت کے سینیئر ریسرچر ڈاکٹر مطیع الرحمان  نے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ آرٹیکل 38 ایف میں ترمیم کے مطابق یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ پاکستان میں اسلامی مالیاتی اور بینکاری نظام کے فروغ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ آئینی ترمیم ایک تاریخی کامیابی ہے، جس سے اسلامی مالیات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ ہوتا ہے۔

’یہ ترمیم وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے 28 اپریل 2022 کو سنائے گئے فیصلے کا نتیجہ ہے، جو جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے تحریر کیا تھا، جس میں عدالت نے ملک کے مالیاتی نظام سے ’رب‘' سود کے مکمل خاتمے کے لیے پانچ سال کی مدت کا تعین کیا تھا۔

’یہ فیصلہ اب آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے، جو پاکستان کی قانون سازی کی تاریخ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔‘

سود کے خاتمے پر ماہرین کی رائے

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے خیال کا اظہار کیا کہ ’سود سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ آئین کا حصہ بنا دیا ہے، لیکن سسٹم یہی چلنا ہے۔ بس اس کا نام تبدیل کر دیا جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ دنیا کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات اور روابط استوار رکھنے کے لیے پاکستانی معاشرے کو کسی نہ کسی سٹیج پر اور صورت میں سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں پر چلنا پڑے گا۔

’ہمیں پرافٹ مارجنز رکھنا پڑیں گے۔ قرضوں پر جو پالیسی انٹرسٹ ریٹس ہیں ان کا نام تو آپ نہیں بدل سکتے۔ آئی ایم ایف آپ کو یہ کرنے نہیں دے گا۔

’میرا یہ خیال ہے کہ یہ ایک خواہش پر مبنی سوچ ہے۔ دونوں نظام ساتھ چلیں گے۔ آپ سرمایہ دارانہ ںطام کو ایک قلم کی جنبش سے ختم نہیں کر سکتے۔‘

داکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ ایک سال پہلے بینکنگ سسٹم کا نام بدل کر اسے اسلامک بینکنگ دبنا دیا گیا لیکن وہاں بھی دونوں نظام چل رہے ہیں۔‘

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فہد علی کہتے ہیں ’شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کی وفاقی حکومت پابند نہیں لیکن آئین کا حصہ بننے کے بعد وفاق پر اس پر عمل کرنا لازم ٹھہرے گا۔

’اب انہیں ہر صورت دیے گئے دورانیے کے اندر اسے لاگو کرنا پڑے گا یا انہیں اس سے پہلے آئین میں دوبارہ ترمیم کرنا ہو گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’میرا خیال یہ ہے کہ یہ ربا کے نام کو ختم کر کے اسلامک بینکنگ کی طرف چلے جائیں گے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان پہلے سے ہی اسلامک بینکنگ کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اسلامک بینکنگ میں سود تو نہیں ہوتا لیکن کسی اور نام سے اس سارے سلسلے کو جاری رکھتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس کا ملک کی معیشت یا لانگ ٹرم ڈویلپمنٹ کے اوپر کوئی خاص فرق پڑے گا۔‘

ماہر اقتصادیات اکرام الحق کے خیال میں یہ ترمیم مذہبی جماعتوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کی گئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں مختلف پریشر گروپس موجود ہیں، جو دین کے نام پر سیاست کرتے ہیں ان کی طرف تسکین کی پالیسی رکھتے ہیں۔

’جہاں تک یہ معاملہ ہے کہ کیا ہم ربا کے بغیر کوئی نظام بنا سکتے ہیں یا نہیں تو دیکھا جائے تو اسلامک بینکنگ کا نظام بھی سودی ہی ہے، لیکن آپ اسے ایک نئے طریقے سے پیش کر کے اسلامی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کہنا تھا کہ ’بین القوامی مارکیٹ کے ریزرو بینکوں کے نظام میں سود کا عنصر لازم ہے۔ اس کے لیے پورا عالمی مالیاتی نظام بدلنا ہو گا۔ آئی ایم ایف نے سود رکھا ہوا ہے۔ چین نے سود رکھا ہوا ہے۔ اس طرح تو ہم دنیا سے الگ تھلگ ہو جائیں گے اور کام نہیں کر پائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا کو متبادل نظام دینے کی قابلیت ہو تو پاکستان کو ضرور سرمایہ داری کے بغیر والا نظام پیش کرنا چاہیے اور جب تک ایسا نہیں کر سکتے سود کا خاتمہ زبانی جمع خرچ کی بحث ہے۔

ان کے خیال میں پاکستان کے معاشی نظام سے سود کے کاتمے کا آئین میں شامل کیا جانا اس مرحلے پر محض ایک سیاسی ہتھیار کے علاوہ کچھ نہیں۔‘

’ربا‘ ہے کیا؟

ایڈوکیٹ احمر مجید نے ’رب‘' یا سود کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا: ’پاکستان میں پہلے سے انفرادی حد تک قرض پر سود لینا جرم ہے، پنجاب کے 2007 کے قانون کے تحت سود پر پیسہ نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن بینکنگ کے نظام میں اس کی اجازت موجود ہے کیونکہ بینک روائتی طور چلتے ہی سود پر ہیں۔

’دنیا میں بینک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کے ڈیپازٹس کا 10 سے 20 فیصد اپنے پاس ریزرو رکھ کر باقی آگے قرض کی صورت میں استعمال اور اس قرض پر سود حاصل کرتے ہیں۔  

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام قرضہ حسنہ کی ترغیب دیتا اور سود کی ممانعت کرتا ہے، لیکن پاکستان میں نظام اس کے برعکس چل رہا ہے۔ ’تاہم اب مختلف بینکوں میں اس کا متبادل متعارف ہو چکا ہے، جس میں سود کے بجائے جائیداد کی مالیت کا تعین کر کے سروس چارجز یا کرایے کے نام پر پیسے لیے جاتے ہیں۔‘

ایک بینکر شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کا بتایا: ’روائتی بینک جب آپ کو کسی بھی شکل میں ایک کانٹریکٹ کے تحت محدود مدت کے لیے پیسہ دیتا ہے تو وہ قرض کہلاتا ہے۔ اس پیسے کے اوپر جب بینک کچھ بھی اور چارج کرتا ہے اسے ربا کہتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ روائتی بینک میں انڈر لائن کانٹریکٹ قرض کا ہوتا ہے اور قرض کی رقم کے اوپر جو بھی رقم ادا کی جاتی ہے وہ ربا کے زمرے میں آتی ہے۔

’دوسری جانب اسلامک بینک آپ کے ساتھ رسک اور ایوارڈ شیئرنگ کا معاہدہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامک بینک آپ کو پیسے نہیں دیں گے بلکہ و ہ آپ سے کہیں گے کہ آپ کو کوئی چیز چاہیے تو وہ آپ سے مرابع، سلم یا استثنی کر لیں گے، جس کے تحت آپ کے ساتھ اس پراڈکٹ کا رسک بھی شئیر کر رہے ہوں گے اور پھر اس کے اوپر وہ آپ سے چارج کرتے ہیں، جیسے آپ کو کوئی چیز ادھار پر دی جائے اور زیادہ پیسوں پر دی جائے تو شریعت اسے منع نہیں کرتی اور نہ وہاں پر ربا ہوتا ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں پورے بینکاری نظام کے اسلامک ہونے کی صورت میں ربا کا خاتمہ کیسے ہو گا انہوں نے کہا: ’وہ ایسے ہی ہو گا جس طرح آج اسلامک بینکنگ کام کر رہی ہے۔ اس لیے جب مکمل اسلامک بینکنگ ہو گی تو ربا خود بخود ختم ہو جائے گا۔‘
آئینی ترمیم پر عمل نہ ہو سکا تو؟

آئنی ترمیم کے حوالے سے احمر کا کہنا تھا: ’پارلیمان نے 26ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے پرنسپلز آف پالیسی کے چیپٹر کے سیکشن ایف کو تبدیل کیا ہے، جس میں پہلے لکھا تھا کہ حکومت ربا کو فوری ختم کرے گی ۔‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کا پرنسپلز آف پالیسی کا چیپٹر انسانی حقوق سے متعلق شقوں سے مختلف ہے اور اس پر عمل درآمد حکومتی وسائل اور موضوع حالات پر منحصر ہو سکتا ہے۔

’بنیادی حقوق پر حکومت نے عمل کرنا ہی کرنا ہے بھلے کچھ بھی ہو جائے، بغیر کسی حیلے بہانے کے۔ لیکن پرنسپل آف پالیسی کا جنرل اصول ہے کہ جب حکومت کے پاس ریسورسسز ہوں گے یا جب حالات مناسب ہوں گے تو حکومت اس میں ذکر کیے گئے کام کرے گی۔‘

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یوں ڈیڈ لائن کوئی لازم نہیں ہو جاتی۔ اگر حکومت اس ڈیڈ لائن سے آگے بھی چلی جاتی ہے اور عدالت میں کوئی درخواست بھی دائر کر دی جاتی ہے تو ان کے اوپر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی جانب سے کوئی سخت فیصلہ یا پینلٹی والی صورت حال پیدا کا امکان نہیں ہو گا۔‘

ماہر قانون ایڈوکیٹ ناصر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان کا معاشی نظام دنیا کے معاشی نظام سے جڑا ہوا ہے اور ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔

’اب جب یہ آئین کا حصہ بنا دیا گیا تو اس پر عمل بھی اتنا ہو گا جتنا 1973 کے آئین کے تحت اردو کو 10 سال کے عرصے میں پاکستان کی سرکاری زبان بنائے جانے پر ہوا۔

ان کا خیال تھا کہ ربا کے لفظ کو تبدیل کر کے اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ جیسے ’پرافٹ اینڈ لاس‘ وغیرہ متعارف کروا دیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت