عسکریت پسندی کی نئی لہر: کالعدم تنظیموں کو فنڈنگ کیسے ہو رہی ہے؟

کوئٹہ کے سینیئر صحافی ایوب ترین کہتے ہیں: ’سکیورٹی اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کالعدم تنظیموں کو دشمن قوتوں سے مدد ملتی ہے، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے مقامی طور پر بھی پیسہ جمع کرنے کے کئی طریقے اپنا رکھے ہیں۔‘

10 مارچ 2024 کو خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سکیورٹی اہلکار ایک دھماکے کے مقام پر موجود ہیں (عبدالمجید / اے ایف پی)

پاکستان میں عسکریت پسندی کی حالیہ لہر مزید تشویش ناک ہوگئی ہے اور زیادہ تر واقعات خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رونما ہو رہے ہیں، جس سے شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا تاثر کچھ حد تک ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

10 سال قبل صرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مختلف گروہ ریاست کے خلاف متحرک تھے مگر اب ٹی ٹی پی کے ساتھ داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی کارروائیاں نہ صرف یہ کہ مسلسل بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک میں 82 فیصد حملوں کی ذمہ داری ان تینوں گروہوں نے ہی قبول کی ہیں۔ ان گروہوں کا نشانہ بیشتر واقعات میں سکیورٹی اہلکار ہی رہے۔

آج ہی کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خود کش حملے میں 20 سے زائد افراد جان سے گئے، جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

رواں سال جنوری میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کی 2023 کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ تین سالوں میں پاکستان میں عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔

پاکستان ضرب عضب اور رد الفساد سمیت کئی فوجی آپریشنز کے ذریعے عسکریت پسندی ختم کرنے کے لیے متحرک رہا ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کے ساتھ سینکڑوں سکیورٹی اہلکار بھی جان سے جا چکے ہیں۔

منی لانڈرنگ اور عسکریت پسندی کے لیے ہونے والی فنڈنگ پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا ہے اور پاکستان کے عسکریت پسندی کے خلاف اقدامات پر اطمنان کا بھی اظہار کیا۔

پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان سمیت کئی اقدامات کے ذریعے بھی عسکریت پسند کالعدم تنظیموں کو ہونے والی فنڈنگ روکنے کی بھرپور کوشش کی۔

محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت کے الزام میں کئی کارروائیاں کی گئی ہیں اور جماعت الدعوۃ سمیت کئی تنظیموں کے اہم رہنما اسی جرم میں جیلوں میں قید ہیں۔

لیکن دہشت گردی کی جاری لہر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بھی کسی نہ کسی طریقے سے ان گروہوں کو مالی امداد مل رہی ہے۔

یہ اتنا بڑا چیلنج ہے کہ نہ صرف کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت روکنا مشکل ہے بلکہ عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی پاکستانی حکومت کو خطیر رقم درکار ہے۔

غیر ملکی ممکنہ مالی معاونت

تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کہتے ہیں کہ ’دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں مالی امداد کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ اس حوالے سے سخت اقدامات تو کیے گئے ہیں لیکن انہیں مکمل طور پر روکنا شاید ممکن نہیں ہے۔‘

انڈپیںڈنٹ اردو سے گفتگو میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے کہا: ’دہشت گردی کے لیے ہمیشہ سے افغانستان کی سر زمین استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان کی دشمن قوتیں دہشت گردوں کی مالی امداد بھی افغانستان کے ذریعے ہی کر رہی ہیں۔ ان گروپوں کو وہیں ٹریننگ دی جاتی ہے اور وہیں سے اسلحہ سپلائی کیا جاتا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’پاکستان نے سخت اقدامات کیے تو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نام نکلا تھا، لیکن ہمارے نظام میں موجود کمزوریوں اور مجبوریوں کی وجہ سے اقدامات پر مستقل عمل نہیں ہو رہا۔‘

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’پاکستان کو معاشی طور پر استحکام سے روکنے کے لیے انڈیا کی ایجنسیاں اور امریکہ کے کچھ عناصر مسلسل کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاتھ کبھی ایف اے ٹی ایف، کبھی آئی ایم ایف کے ذریعے باندھ دیے جاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنے ہاتھ کھول لینے چاہییں اور حتمی طور پر ان تنظیموں کی سپلائی لائن مکمل طور پر بند کر دینی چاہیے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے کہا کہ ’افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ہی دہشت گردی کی کارروائیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ انہیں ہر طرح کی معاونت وہیں سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے نظام میں موجود حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بھی مالی امداد دہشت گردوں تک پہنچ رہی ہے۔ جب تک انہیں ملنے والی مالی امداد کو روکا نہیں جاتا، وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔‘

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2023 میں عسکریت پسندی کے 306 حملوں میں 693 لوگ اپنی جانوں سے گئے اور 1124 افراد زخمی ہوئے۔

اسی طرح 2022 کے مقابلے میں 2023 میں عسکریت پسندی کے واقعات میں 17 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ جانی نقصان 2022 کے مقابلے میں 65 فیصد زیادہ رہا۔

بلوچستان میں عشسکریت پسندی کے واقعات میں 39 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جب کہ جان سے جانے والوں میں 330 افراد کا تعلق افواج اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں سے ہے، جن میں سے 26 ایف سی، 176 پولیس، 110 فوجی، 11 لیویز، دو رینجرز کے اہلکار شامل تھے۔ مرنے والوں میں 260 عام شہری بھی شامل ہیں۔

دوسری طرف عسکریت پسندوں کے جانی نقصان کا عدد 103 ہے اور 47 زخمی ہوئے ہیں۔ گویا ایک عسکریت پسند کی موت کے بدلے ہمارے چھ لوگ مارے گئے۔

مقامی سطح پر کالعدم تنظیموں کی مالی امداد

کوئٹہ کے سینیئر صحافی ایوب ترین کہتے ہیں کہ شدت پسندی کے واقعات میں ملوث یہ کالعدم تنظیمیں غیر ملکی کے علاوہ مقامی ذرائع سے بھی مالی امداد حاصل کرتی ہیں۔

انڈپیڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’کالعدم تنظیموں میں شامل افراد کا تعلق چونکہ اسی علاقے سے ہوتا ہے، اس لیے وہ مالی امداد کے لیے مقامی نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’سکیورٹی اداروں کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کالعدم تنظیموں کو دشمن قوتوں سے مدد ملتی ہے، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے مقامی طور پر بھی پیسہ جمع کرنے کے کئی طریقے اپنا رکھے ہیں۔‘

ایوب ترین کے بقول: ’بی ایل اے کی جانب سے دکی میں کوئلے کی کان میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ تحقیقات کے دوران سامنے آیا کہ کان کے ٹھیکے دار کی جانب سے بی ایل اے کو بھتے کی فراہمی بند کرنے پر خوفزدہ کرنے کے لیے تنظیم نے یہ دھماکہ کیا۔ اسی طرح مختلف منصوبوں پر کام کرنے والی کمپنیوں اور ٹھیکے داروں سے بھی اسلحے کے زور پر بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ ان ویران علاقوں میں مختلف سرمایہ داروں کو لوٹنے کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ ان تنطیموں نے آگے گروہ بنا رکھے ہیں جو لوٹ مار کر کے انہیں پہنچاتے ہیں۔‘

کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے مزید کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ اس حوالے سے جاننے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ سے رابطہ کیا گیا، لیکن ان کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔ جواب موصول ہوتے ہی اسے رپورٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔

تاہم ملک میں عسکریت پسندی کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے اہم ذرائع کے حوالے سے سابق وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن نے کچھ عرصہ قبل سینیٹ میں تفصیلات فراہم کی تھیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ’دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والے ذرائع کی سو فیصد نشاندہی کرنا مشکل ہے، لیکن کچھ معلوم ذرائع کے مطابق دہشت گردی کے لیے رقم بھتے اور غیر ملکی ایجنسیوں کی جانب سے موصول ہوئی ہے۔ دہشت گرد یہ رقم پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں پر موجود منشیات کے سمگلروں اور ان کو تیار کرنے والوں کے ذریعے منتقل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے 844  مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں، جن میں سے 498 مقدمات فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ، 232 انسداد منی لانڈرنگ اور 116 سٹیٹ بینک کے فنانس مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے پراسرار قرار دی جانے والی رقم کی منتقلی کے بارے میں ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی اقدامات کو مضبوط کرنے کے لیے مارچ 2013 اور جون 2014 میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترامیم کی گئیں، تاکہ قانون کو مزید مؤثر اور بین الاقوامی معاملات سے ہم آہنگ بنایا جاسکے، جس کا مقصد عسکریت پسندوں کی فنڈنگ کو روکنا تھا۔

اس کے ساتھ ہی عسکریت پسندوں کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا قانون بھی متعارف کروایا گیا، جسے حتمی نظرثانی کے لیے قانون اور انصاف کے ڈویژن کو بھیج دیا گیا ہے۔

سٹیٹ بینک نے بھی تمام بینکوں کے لیے قواعد و ضوابط جاری کیے ہیں، جن پر سختی سے عمل درآمد کی تاکید کی گئی ہے۔

دوسری جانب الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی روک تھام کے ایکٹ (پی ای سی اے) 2016 کو نافذ کیا گیا، جس کے ذریعے عسکریت پسندوں کے لیے کسی بھی مواصلاتی نظام کے ذریعے رقم کی منتقلی کو جرم قرار دیا گیا۔

اسی طرح انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010  سے پہلے سے نافذ العمل ہے۔

حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے افراد کی فہرست اور ان کے قومی شناختی کارڈ نمبر مرکزی بینک سے شیئر کیے ہیں تاکہ ان کے اکاؤنٹ منجمد کیے جا سکیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق ملک بھر میں4461  اکاؤنٹس مجمند کیے گئے۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر راجا کمار نے گرے لسٹ سے پاکستان کے نکلنے پر جاری کیے گئے بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان اب منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے خلاف مؤثر کام کر رہا ہے۔۔۔۔ پاکستانی قیادت میں اصلاحات میں پائیداری اور مستقبل میں بہتری کے لیے اعلیٰ سطح کا عزم پایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مالی اور دیگر اداروں میں رسک کی بنیاد پر نگرانی بہتر کرنے، اثاثوں سے متعلق اور منی لانڈرنگ کی تفتیش اور قانونی کارروائی کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’پاکستان نے ایک ایکشن پلان پر پہلے ہی عمل درآمد کیا ہوا تھا اور اب تمام 34 ایکشن پلان مکمل ہو گئے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کو اس حوالے سے مزید اقدامات کی ضرورت نہیں بلکہ اس بارے میں مسلسل کام جاری رکھا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان