شادی کے بعد انسان کی زندگی یکسر بدل جاتی ہے۔ اگر شادی اچھی ثابت ہو تو نہ صرف شادی شدہ جوڑا بلکہ ان کے گھر والے بھی سکون کی زندگی گزارتے ہیں اور اگر شادی بری نکلے تو ان سب کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں دونوں خاندان مل کر بیٹھتے ہیں اور مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر کوئی پارٹی مسئلے کے حل پر نہ آئے تو وہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ایسی صورتوں میں مردوں سے زیادہ خواتین کا نقصان ہوتا ہے۔
پاکستان میں شادی شدہ جوڑوں کے معاشرتی مسائل بے تحاشا ہیں۔ لیکن اس سے متعلقہ قانونی مسائل کی بھی کوئی کمی نہیں۔
یہاں شادی کی رجسٹریشن کا عمل وہ مرحلہ ہے، جہاں زیادہ تر مرد خواتین کا استحصال کرتے ہیں۔ بہت سے مرد نادرا میں اپنی شادی کا اندراج ہی نہیں کرواتے۔ خواتین ان کے نکاح میں ہونے کے باوجود قانونی طور پر ان کی بیوی نہیں ہوتیں۔ جب تک شادی اچھی چلتی ہے انہیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن جیسے ہی شادی میں کوئی مشکل پیش آتی ہے وہ سب سے پہلے متاثر ہوتی ہیں۔
پاکستان میں شادی لڑکی کی متعلقہ یونین کونسل میں رجسٹر ہوتی ہے۔ یونین کونسل جوڑے کو میرج رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ جوڑے کو وہ سرٹیفکیٹ نادرا میں جمع کروا کر اپنے شناختی کارڈ اپڈیٹ کروانے ہوتے ہیں۔ اگر لوگ یونین کونسل ہی نہ جائیں یا وہاں سے اپنی شادی کا سرٹیفکیٹ لینے کے بعد نادرا ہی نہ جائیں تو نادرا کو ان کی شادی کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
بہت سے لوگ سستی کی وجہ سے نادرا میں اپنی شادی کی رجسٹریشن کا کام ٹالتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کا بچہ سکول جانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ سکول والوں کو بچے کا برتھ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ چاہیے ہوتا ہے۔ تب جوڑا نادرا میں اپنی شادی رجسٹر کرواتا ہے۔ کوئی قانون انہیں اپنی شادی ایک مخصوص مدت تک رجسٹر کروانے کے لیے مجبور نہیں کرتا۔ یہ وہ جھول ہے جہاں مرد خواتین کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
شادی کی بنیاد پر باہر جانے کے لیے میرج رجسٹریشن سرٹیفکیٹ وزارتِ خارجہ سے تصدیق کروانا ہوتا ہے۔ وزارتِ خارجہ شادی سرٹیفکیٹ کی تصدیق کے لیے عورت کا شادی کی بنیاد پر بنا ہوا شناختی کارڈ مانگتی ہے۔ یہاں بھی مرد پر نادرا میں شادی رجسٹر کروانے کی پابندی نہیں ہے۔
اگر جوڑے میں سے کوئی ایک نادرا کے دفتر جا کر اپنی شادی رجسٹر کروانے کی کوشش کرتا ہے تو نادرا اسے جوڑے کی صورت میں آنے کا کہتا ہے۔ اگر دوسرا ساتھی ملک سے باہر ہو تو بس خاندان کے کسی بھی فرد کے ساتھ آنے پر موجود ساتھی کی شادی رجسٹر کر دی جاتی ہے۔ لیکن آن لائن طریقہ کار میں آسانی کی غرض سے امیدوار کا میرج رجسٹریشن سرٹیفکیٹ دیکھنے کے بعد شادی کا ریکارڈ اس کے شناختی کارڈ میں اپڈیٹ کر دیا جاتا ہے۔
مردوں کے لیے یہاں بھی آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ اپنی بیویوں کو آن لائن شناختی کارڈ اپڈیٹ کرنے کا کہہ دیتے ہیں جبکہ خود نادرا کے سسٹم میں اپنی شادی کا اندراج نہیں کرتے۔ یوں نادرا کے ریکارڈ میں شادی شدہ خواتین کے شوہر کنوارے نظر آتے ہیں۔
اگر شادی نادرا میں رجسٹر ہونے سے پہلے ہی طلاق تک پہنچ جائے تو مرد اپنے کپڑے جھاڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ عورت کو یونین کونسل سے طلاق کا سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے اور پھر اسے نادرا میں جمع کروانا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب اور اسلام آباد کی یونین کونسل کا ڈیٹا ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ اگر پنجاب کی کسی بھی یونین کونسل میں شادی رجسٹر ہوئی ہے تو اس کا ڈیٹا دوسری یونین کونسل میں دیکھا جا سکتا ہے۔
پورے ملک کی یونین کونسل کا ڈیٹا جڑا ہوا نہیں ہے۔ اگر کسی آدمی نے پہلی شادی سندھ میں کی ہو اور وہ صرف وہاں کی یونین کونسل میں رجسٹر ہو۔ وہ کچھ عرصے بعد دوسری شادی پنجاب میں کرے تو اس کے سسرال والوں کو اس کی پہلی شادی کا پتہ ہی نہیں چلے گا۔
البتہ میرج رجسٹریشن سرٹیفکیٹ ہونے کی صورت میں خواتین اپنے شوہر پر کیس فائل کر سکتی ہیں۔ وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔
بہت سی خواتین کے پاس کیس لڑنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ پھر کیس کی صورت میں ہونے والی معاشرتی بدنامی سے بچنے کے لیے وہ شوہر کے خلاف کیس کرنے کے بجائے اس سے چپ چاپ الگ ہونا یا صلح کرنا بہتر سمجھتی ہیں۔
ان مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ یونین کونسل اور نادرا کا ریکارڈ منسلک ہوں تاکہ شادی کا مکمل ریکارڈ دونوں پارٹنرز کے لیے خودکار طریقے سے محفوظ کیا جا سکے۔ یہ نظام خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کرے گا اور انہیں ازدواجی معاملات میں غیر یقینی صورتحال سے محفوظ رکھے گا۔
حکومت کو مردوں پر شادی رجسٹر کروانے کی سختی سے عمل داری کروانی چاہیے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے نہ ہٹ سکیں۔ یوں ہم ایک ایسے معاشرے کی جانب قدم بڑھائیں گے جہاں ازدواجی حقوق و فرائض کا احترام ہوگا اور خواتین کو ان کے قانونی حق میں تحفظ ملے گا۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔