پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے جمعرات کو لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں مقامی پولیس کو ٹرین میں سفر کے دوران خود کو دھمکی دیے جانے کے واقعے کی رپورٹ درج کروا دی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے جانے والے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’پولیس کو ٹرین میں چھری سے قتل کی دھمکی اور ہراسانی کے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔‘
بیان میں بتایا گیا کہ واقعے کی تحقیقات لندن ٹرانسپورٹ پولیس کر رہی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کو دھمکی دینے کا واقعہ 11 نومبر 2024 کی سہ پہر تقریباً ساڑھے تین بجے الزبتھ لائن ٹرین میں پیش آیا تھا۔
خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا کہ ’لندن میں نجی دورے پر ہوں، اپنے ایک عزیز کے ہمراہ الزبتھ لائن کے ذریعے ریڈنگ جا رہا تھا کہ تین سے چار افراد پر مشتمل ایک خاندان کے افراد نے ٹرین میں ہراساں کیا، بلا اجازت ویڈیو بنائی، نازیبا الفاظ کا استعمال کیا اور چھری سے قتل کرنے کی دھمکی دی۔‘
خواجہ آصف کے مطابق وہ اس واقعے میں ملوث کسی فرد کو نہیں پہچانتے۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ لندن ٹرانسپورٹ پولیس سی سی ٹی وی ویڈیوز کی مدد سے ملزمان کا سراغ لگائے کیوں کہ قتل کی دھمکیاں اور ہراساں کرنے کے ایسے مذموم واقعات برطانیہ میں مقیم 17 لاکھ پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کے لیے بھی باعث شرم اور قابل افسوس ہیں۔
گذشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کو لندن میں دی گئی دھمکیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آزادی اظہار رائے نہیں بلکہ ’سنگین قانونی کارروائی‘ کا متقاضی عمل ہے۔
جیو نیوز کے لندن میں مقیم نمائندے مرتضیٰ علی شاہ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر بدھ کو ایک ویڈیو شیئر کی تھی، جس میں وزیر دفاع خواجہ آصف کو لندن میٹرو میں دیکھا جا سکتا ہے جبکہ پس منظر میں ایک شخص پنجابی میں کہتا ہوا سنا جا سکتا ہے: ’پھڑ کے لے جا، پھڑ کے، چک کے لے جا اینوں، کسی نے۔۔۔ بندے نے چھری مار دینی اے۔ ایتھے وج بھی جاندی اے چھری۔‘ (انہیں پکڑ کر لے جائیں، کسی نے چھری مار دینی ہے۔ یہاں لگ بھی جاتی ہے چھری)
اس ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے ایکس پر اپنے پیغام میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا تھا: ’یہ آزادی اظہار نہیں ہے، یہ ایک براہ راست دھمکی ہے، جو سنگین قانونی کارروائی کی متقاضی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’سیاست ایک طرف، کسی کو بھی اس طرح کی دھمکی دینے کا کوئی حق نہیں ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آخر میں عطا تارڑ نے لکھا: ’بس بہت ہوگیا۔‘
گذشتہ ماہ لندن میں ہی سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور پاکستانی ہائی کمیشن کی گاڑی پر حملے کا واقعہ پیش آیا تھا، جس پر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے نادرا کو ویڈیو فوٹیج کے ذریعے حملہ آوروں کی شناخت کرکے فوری کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔
پاکستانی ہائی کمیشن نے اس معاملے کو برطانوی حکام کے ساتھ اٹھایا تھا۔
25 اکتوبر 2024 کو ریٹائر ہونے والے سابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ منگل کی شام لندن میں مڈل ٹیمپل میں ایک تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے۔ مڈل ٹیمپل برطانیہ کی چار وکلا سوسائٹی میں سے ایک ہے۔
اس موقعے پر جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف احتجاج کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں کا ایک بڑا ہجوم جمع ہوا اور پی ٹی آئی رہنماؤں ذلفی بخاری، ملیکہ بخاری، اظہر مشوانی اور دیگر نے وہاں خطاب بھی کیا۔
مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر سابق چیف جسٹس کے خلاف نعرے درج تھے۔ اسی طرح انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مدعو کرنے سے متعلق ادارے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ’مڈل ٹیمپل، شرم کرو!‘ اور ’گو قاضی گو!‘ کے نعرے بھی لگائے۔
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں لوگوں کو بظاہر پاکستانی ہائی کمیشن کی گاڑی پر مکے برساتے اور نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
اس واقعے کے ایک ہفتے بعد خواجہ آصف کو لندن کی ٹرین سے اترتے ہوئے دھمکی دی گئی ہے۔