بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک تاجر کے نو سالہ بیٹے کے اغوا کے خلاف منگل کو شہر میں مکمل شٹر ڈاؤن کیا گیا، جب کہ احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی۔
مغوی طالب علم مصور خان کو کچھ روز قبل سکول سے گھر جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا، جس اہل خانہ کے مطابق تاوان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کوئٹہ کی تاجر برادری نے صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنے کے علاوہ زرغون روڈ پر کیمپ بھی قائم کیا، جب کہ منگل کو میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
شٹر ڈاؤن کے نتیجے میں شہر میں چھوٹی بڑی دکانیں بند رہیں اور سڑکوں پر کم رش دیکھنے کو ملا۔
مغوی طالب علم مصور خان کے کزن عبدالباری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مصور خان جمعے کی صبح گھر سے سکول وین میں بیٹھا اور وین پٹیل باغ میں سکول وین پہنچی تو پانچ مسلح افراد نے وین ڈرائیور پر اسلحہ تان کر بچے کو ساتھ لے گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اغوا کاروں نے سکول وین کے ڈروائیور کے علاوہ اس میں موجود ایک خاتون استاد پر بھی تشدد کیا۔
’واقعہ کے 15 منٹ بعد ہم نے ریسکیو کو اطلاع دی، جب شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کو بلاک کر کے بچے کو بازیاب کروایا جا سکتا تھا۔ لیکن پولیس نے بروقت کارروائی نہیں کی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصور خان کے اغوا کے خلاف جمعے کو ہی احتجاج ہو گیا تھا، جب کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں بازیابی کے لیے درخواست بھی دائر کی گئی۔
سرکاری حکام نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں نصب تقریباً سی سی ٹی وی کیمروں میں سے 600 غیر فعال ہیں اور دستیاب سی سی ٹی وی فوٹیج سے ملزم کی شناخت ممکن نہیں ہے۔
احتجاج میں تاجر برادری کے علاوہ وکلا، طلبہ، سیاسی رہنماؤں سمیت ہر طبقے کے لوگف شرکت کر رہے ہیں۔
انتظامیہ کے ساتھ مظاہرین کے مذاکرات کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔
کوئٹہ شہر میں امن و امان کی ابتر حالت کے پیش نظر شہر کے مختلف علاقوں میں سخت سکیورٹی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور پولیس کے علاوہ فرنٹیئر کور بھی تعینات ہے۔