برطانیہ کی حکومت نے بنگلہ دیش کے لیے اپنی سفری ہدایات پر نظرثانی کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیائی ملک میں ’دہشت گرد ممکنہ طور پر حملے کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘
یہ اپ ڈیٹ منگل کی شام فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) کی جانب سے جاری کی گئی جس میں پہلے سے موجود ایڈوائزری کو تقویت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کا ’صرف ضروری سفر‘ کیا جائے۔
ایڈوئزری میں غیر ملکی شہریوں کے لیے ہجوم والی جگہوں، مذہبی مقامات اور سیاسی اجتماعات میں خطرات کو اجاگر کیا گیا ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ ’کچھ گروہ ان لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جنہیں وہ اسلام مخالف خیالات اور طرز زندگی والا سمجھتے ہیں۔‘
برطانوی حکومت کے اس مشورے میں گذشتہ حملوں کو نمایاں کیا گیا ہے جن میں بڑے شہروں میں دیسی ساخت کے بم استعمال کیے گئے۔ ایڈوائزری میں شہری علاقوں میں اقلیتی مذہبی برادریوں، پولیس اور سکیورٹی فورسز کو درپیش ممکنہ خطرات کا ذکر ہے۔ حکام ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے اضافی سکیورٹی اقدامات یا نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
ایف سی ڈی او نے بنگلہ دیش کی سیاسی صورت حال کو غیر مستحکم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرے اور ہڑتالیں اکثر تشدد میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جھڑپوں، آتش زنی، توڑ پھوڑ اور عوامی نقل و حمل یا عمارتوں پر حملوں کے نتیجے میں اموات ہو چکی ہیں۔
اگرچہ ان ہدایات پر قانونی طور پر عمل لازمی نہیں لیکن اسے نظر انداز کرنے سے سفر کی صورت میں کی جانے والی انشورنس کوریج متاثر ہو سکتی ہے۔
سفری ہدایات میں یہ تبدیلی اس کے بعد کی گئی جب پارلیمانی بحثوں میں بنگلہ دیش میں اقلیتی برادریوں، خاص طور پر ہندوؤں کے ساتھ سلوک پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔ برطانوی وزیر برائے ہند بحرالکاہل کیتھرین ویسٹ نے پیر کو دارالعوام میں خطاب کرتے ہوئے انڈیا کی حکومت کے خدشات کا ذکر کیا جن میں حال ہی میں بنگلہ دیشی ہندو پادری چن موئے کرشن داس کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کرنے پر تشویش ظاہر کی گئی۔
ویسٹ کا کہنا تھا کہ ’ہم انڈین حکومت کے بیان سے آگاہ ہیں جس میں چن موئے کرشن داس کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایف سی ڈی او اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے حالیہ دورہ بنگلہ دیش کے دوران، عبوری حکومت نے انہیں اقلیتی برادریوں کی مدد کی یقین دہانی کرائی۔
بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ، جن کی حکومت قبل ازیں رواں سال بڑے پیمانے پر سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کے بعد ختم ہو گئی، نے عبوری رہنما محمد یونس پر ’نسل کشی‘ کی سازش کرنے اور ملک کے اقلیتی گروپوں جیسے ہندوؤں، بدھ مت کے پیرکاروں اور مسیحیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کیا ہے۔
نیویارک سے ویڈیولنک کے ذریعے بنگلہ دیش کے ’وجے دیوس‘ (یوم فتح) کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے کہا کہ انہیں اور ان کی بہن شیخ ریحانہ کو قتل کرنے کی سازش کی گئی جو 1975 میں ان کے والد شیخ مجیب الرحمان کے قتل سے مماثلت رکھتی ہے۔
یہ جملے بنگالی زبان میں ادا کیے گئے۔ یہ شیخ حسینہ کا وہ پہلا عوامی خطاب تھا جو انہوں نے اگست میں بنگلہ دیش سے انڈیا فرار ہونے کے بعد کیا۔
انہوں نے پانچ اگست کو دارالحکومت ڈھاکہ میں اپنے گھر پر مظاہرین کے حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلح مظاہرین کو ان کی سرکاری رہائش گاہ کی طرف بھیجا گیا۔ اگر محافظ گولی چلاتے تو کئی جانیں ضائع ہو جاتیں۔ یہ 25 سے 30 منٹ کی بات تھی اور مجھے وہاں سے نکلنا پڑا۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو، فائرنگ نہ کی جائے۔‘
انہوں نے محمد یونس پر الزام عائد کیا کہ وہ ریاستی مشینری کا استعمال کر کے ملک کے مذہبی اقلیتی گروپوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ’ہندو، بدھ مت، مسیحی کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ 11 گرجا گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ مندر اور بدھ مت کی عبادت گاہیں توڑی گئیں اور جب ہندو احتجاج کرنے نکلے تو اس کے بعد اسکون (بین الاقوامی سوسائٹی برائے کرشن کانشسنس) کے رہنما کو گرفتار کر لیا گیا۔‘ وہ چن موئے داس کی حراست کا حوالہ دے رہی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیخ حسینہ نے ظلم و ستم کی سوچی سمجھی مہم کا الزام بھی عائد کیا۔ انہوں نے محمد یونس پر حکومت کی آڑ میں ظلم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’اقلیتی طبقے پر ظلم کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیوں ان پر بے رحمی سے ظلم و تشدد اور حملے کیے جا رہے ہیں؟‘
ماضی کی وزیر اعظم نے محمد یونس کی حکومت کے دور میں بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کا ذکر کیا۔ نئی دہلی نے اقلیتی گروپوں پر حملوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے حال ہی میں شدت پسندانہ بیان بازی اور پرتشدد واقعات کی مذمت کی اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت سے اقلیتی گروپوں کے تحفظ کی درخواست کی۔
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعہ کو کہا: ’ہمارا موقف بہت واضح ہے۔ عبوری حکومت کو تمام اقلیتی گروپوں کے تحفظ کی ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا۔‘ ۔ انہوں نے داس کے معاملے کا شفاف اور منصفانہ حل کا مطالبہ کیا۔ اس معاملے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے۔
شیخ حسینہ نے کہا کہ انہوں نے بنگلہ دیش سے فرار ہو کر مزید خونریزی کو روکنے کی کوشش کی لیکن افسوس کہ ان کا جانا خونریزی روکنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب لوگ بے گناہ مر رہے تھے، تو میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔‘ انہوں نے عبوری حکومت پر تنقید کی کہ وہ اپنی پرتشدد کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
اگرچہ محمد یونس نے شیخ حسینہ کے الزامات کا ابھی تک جواب نہیں دیا لیکن انہوں نے بدھ کو ملک کے سیاست دانوں سے درخواست کی کہ وہ ’انڈین جارحیت‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے اختلافات ایک طرف رکھ دیں۔
انہوں نے بنگلہ دیشی سیاست دانوں سے خطاب میں کہا کہ ’وہ نئے بنگلہ دیش کی تعمیر کی ہماری کوششوں کو کمزور کر رہے ہیں اور جھوٹی کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔‘ یہ بیان واضح طور پر نئی دہلی کی طرف اشارہ تھا جس نے اقلیتی گروپوں پر حملوں کی مذمت کی۔
© The Independent