حال ہی میں گورڈن بیل پرائز جیتنے والے پاکستانی محقق ڈاکٹر زبیر خالد کا کہنا ہے کہ ان کے بنائے گئے پروجیکٹ کلائمیٹ ایمیولیٹر سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا، خصوصاً سیلاب کی پیش گوئی جلد اور بہتر طریقے سے کی جا سکے گی۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر زبیر خالد، محققین کی اس 12 رکنی عالمی ٹیم میں شامل ہیں، جنہوں نے گذشتہ ماہ امریکی شہر ایٹلانٹا میں اپنے پروجیکٹ پر ’گورڈن بیل پرائز‘ جیتا ہے، جسے ’سپر کمپیوٹنگ کا نوبیل انعام‘ بھی کہا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر زبیر خالد نے بتایا کہ وہ اس پروجیکٹ کا فائدہ ملک کو پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ’پاکستان میں اس ماڈل کے ذریعے ہم سیلاب کی پیش گوئی جلد اور بہتر طریقے سے کر سکیں گے اور لوگوں کو اس کا بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تکنیکی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اس وقت ہم پنجاب حکومت کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور صوبائی حکومت ایک کلائمیٹ آبزرویٹری سیٹ اپ کرنے کا سوچ رہی ہے، جس میں ہم کلائمیٹ ڈیٹا کو ہوسٹ کریں گے، جو ریموٹ سینسر یا آن گراؤنڈ سینسر سے آرہا ہے، وہ ڈیٹا اس کلائمیٹ آبزرویٹری میں ہوسٹ ہوگا۔‘
ڈاکٹر زبیر خالد نے مزید بتایا کہ وہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ساتھ بھی کام کر رہے ہیں۔ ’ہم انہیں سیلاب اور دیگر شدید موسمی حالات کے بارے میں بہتر پیش گوئی کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں تاکہ قومی سطح پر موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے بہتر طریقے سے تیار ہوا جا سکے۔‘
لمزکے سید بابر علی سکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ میں الیکٹریکل انجینیئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر زبیر خالد کے مطابق وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’یہ ایوارڈ ہمارے کلائمیٹ ماڈلنگ پروجیکٹ کے لیے ملا۔ ہم نے اپنے پروجیکٹ پر دو سال تک کام کیا اور گذشتہ ماہ سپر کمپیوٹنگ کانفرنس میں اسے پیش کیا، جس کے بعد ہمیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔‘
ڈاکٹر زبیر خالد نے بتایا کہ ان کی ٹیم میں 12 لوگ شامل تھے، جن کا تعلق مختلف ممالک سے تھا۔ ان میں دو کلائمیٹ سائنس دان، پانچ ماہر شماریات جبکہ باقی پانچ ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ کے تھے۔
سپر کمپیوٹنگ کانفرنس امریکہ کے شہر ایٹلانٹا میں ہوئی اور بقول ڈاکٹر زبیر خالد اس مقابلے میں دنیا بھر سے 18 ہزار امیدوار شریک ہوئے۔
پروجیکٹ کیا ہے؟
ڈاکٹر زبیر خالد نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ موسمیاتی تبدیلی اور کلائمیٹ ماڈلنگ کے حوالے سے تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے اور ہم سب نے اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں ہم نے سموگ کی شکل میں موسمیاتی تبدیلی کو دیکھا بھی ہے اور اس کے علاوہ گرمیوں میں ہیٹ ویو کی شکل میں بھی ہم یہ دیکھ چکے ہیں۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف تخفیف اور موافقت کی حکمت عملی بنانی ہے، جس کے لیے ہمیں کلائمیٹ ڈیٹا چاہیے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’کلائمیٹ ڈیٹا عموماً کلائمیٹ سیمیولیشن سے آ رہا ہوتا ہے اور جب ہم اس کی بات کرتے ہیں تو اس میں کچھ ریاضیاتی مساوات (Mathematical Equations) کو استعمال کیا جاتا ہے، جس سے کلائمیٹ ڈیٹا جنریٹ ہوتا ہے۔ ان کو کلائمیٹ ماڈل بھی کہا جاتا ہے لیکن ان ریاضیاتی مساوات کو چلانے کے لیے ہمیں سپر کمپیوٹر درکار ہوتے ہیں جہاں بہت زیادہ کمپیوٹ پاور چاہیے ہوتی ہے۔‘
بقول ڈاکٹر زبیر خالد: ’اگر ہم سپر کمپیوٹر استعمال بھی کر لیں تو اس کلائمیٹ ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے لیے ہمیں کمپیوٹر میں بہت زیادہ سٹوریج چاہیے۔
’ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم اپنے اس پروجیکٹ کے اندر ان دونوں مسائل کو حل کریں، اس لیے ہم نے ایگزا سکیل کلائمیٹ ایمیولیٹر بنایا۔ کلائمیٹ ایمیولیٹر بالکل سیمیولیشن کی طرح کام کرتا ہے لیکن وہ سیمیولیشن کے ڈیٹا سے سیکھ لیتا ہے کہ اس نے دیٹا کس طرح جنریٹ کرنا ہے۔ سیکھنے کے بعد جب اسے کہا جائے، وہ ڈیٹا کی لا محدود مقدار کی طلب کو جنریٹ کر سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر زبیر خالد نے مزید بتایا: ’اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کلائمیٹ ایمیولیٹر بن جائے گا تو آپ کو ضرورت نہیں ہے کہ آپ کمپیوٹ پاور زیادہ استعمال کریں اور ڈیٹا کو سٹور کریں بلکہ آپ طلب کے حساب سے کلائمیٹ ایمیولیٹر کے ذریعے ڈیٹا کو جب چاہیں جنریٹ کر سکتے ہیں۔‘
کلائمیٹ ایمیولیٹر کا فائدہ کیا ہوگا؟
ڈاکٹر زبیر خالد نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ ’اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم مختلف حالات کو یا مختلف موسمیاتی پیش گوئیوں کو مزید بہتر کر سکتے ہیں کیونکہ کلائمیٹ ایمیولیٹر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ ہائی ریزولوشن ڈیٹا جنریٹ کر سکے۔
’ہائی ریزولوشن سے میری مراد ہے ہائی ریزولوشن جگہ اور وقت دونوں میں۔ ہم نے جو کلائمیٹ ایمیولیٹر بنایا ہے وہ اس قابل ہے کہ اس کی ریزولوشن موجودہ کلائمیٹ ایمیولیٹر کی نسبت تین لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں اس کلائمیٹ ایمیولیٹر کو استعمال کر کے مختلف موسمیاتی حالات کی پیش گوئی کی جا سکے گی اور یہ بتایا جا سکے گا کہ ان موسمیاتی تبدیلیوں کا کہاں کیا اثر ہوگا۔‘
کیا اس کا کوئی کمرشل فائدہ بھی ہوگا؟
ڈاکٹر زبیر خالد نے بتایا کہ ’کلائمیٹ ایمیولیٹر پہلے بھی موجود ہیں لیکن ان کی ریزولوشن اتنی اچھی نہیں تھی۔ ہم نے اس کی باؤنڈری کو آگے کیا اور دیکھا کہ کیا ہم سپر کمپیوٹر کی مدد لیتے ہوئے ہائی ریزولوشن کلائمیٹ ایمیولیٹر بنا سکتے ہیں، لہذا ہمارا ایمیولیٹر موجودہ ایمیولیٹر سے تین لاکھ گنا زیادہ ریزولوشن مہیا کرتا ہے۔
’یقیناً اس کا کمرشل فائدہ بھی ہے لیکن اس کی سماجی و اقتصادی صلاحیت بہت زیادہ ہےکیونکہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کر کے معاشرے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
’جہاں تک کمرشل استعمال کا تعلق ہے تو ہم نے جو سائنس بنائی ہے، اسے آپ مختلف ایپلی کیشنز میں استعمال کر سکتے ہیں اور بہت سے لوگ اسے استعمال کرنا چاہیں گے کیونکہ ہم نے سپر کمپیوٹرز پر چلنے والے ایلگورتھم ڈیزائن کیے ہیں، جو مختلف ادارے مختلف ایپلی کیشنز میں استعمال کر سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر زبیر خالد نے مزید بتایا کہ ’اس پروجیکٹ میں میرا کردار کور ایلگورتھم کو اس طرح ڈیزائن کرنا تھا کہ وہ مختلف سپر کمپیوٹرز پر چل سکے۔ ہم نے اپنے ایلگورتھمز کو دنیا کے 10 بہترین سپر کمپیوٹرز میں سے چار سپر کمپیوٹرز فرنٹیر، لیانارڈو، ایلپس اور سمٹ پر چلایا اور ان چاروں پر ہم نے اپنی بہترین کارکردگی کو حاصل کر کے دکھایا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب ہم نے اپنے پروجیکٹ کو سپر کمپیوٹنگ کانفرنس میں پیش کیا اور اس کے بعد جیتنے والی ٹیم کے نام کا اعلان ہوا تو ایک توقع اور غیر یقینی کی کیفیت کا احساس ایسا تھا، جو شاید میں نے طالب علمی کے زمانے کے بعد پہلی مرتبہ محسوس کیا۔
’ہمیں یقین نہیں تھا کہ یہ ایوارڈ ہمیں ملے گا بھی یا نہیں۔ میں بہت خوش تھا کہ میں نے یہ ایوارڈ جیتا اور میں وہاں پاکستان اور لمز کی نمائندگی کر کے یہ ایوارڈ پاکستان لا سکا۔‘