اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) یا عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈینام گیبری ایسس نے بتایا ہے کہ جمعرات کو وہ یمن کے دارالحکومت صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر موجود تھے کہ وہاں اسرائیل نے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ان کے جہاز کے عملے کا ایک رکن زخمی ہوا جب کہ ایئرپورٹ پر دو اموات بھی واقع ہوئیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈینام گیبری ایسس، جو جمعرات کو صنعا میں موجود تھے، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ یمنی دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر جہاز میں سوار ہونے ہی والے تھے کہ وہاں فضائی حملہ ہوا۔
انہوں نے لکھا: ’ہمارے طیارے کے عملے کا ایک رکن زخمی ہوا۔ ہوائی اڈے پر کم از کم دو افراد کی اموات کی اطلاع ہے۔ (حملے کے نتیجے میں) ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور، ڈیپارچر لاؤنج ، جہاں سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر ہم موجود تھے اور رن وے کو نقصان پہنچا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمیں واپسی سے پہلے ہوائی اڈے کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ میں، میرے اقوام متحدہ اور ڈبلیو ایچ او کے ساتھی محفوظ ہیں۔ ان خاندانوں سے ہماری دلی تعزیت ہے جن کے پیارے اس حملے میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔‘
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ان کی صنعا میں موجودگی کا مقصد حراست میں لیے گئے ان کے عملے کے اراکان کی رہائی اور یمن میں صحت اور انسانی صورت حال کا جائزہ لینا تھا، جو جمعرات کو مکمل ہوا۔‘
انہوں نے اپنی پوسٹ میں زیر حراست افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
صنعا میں جمعرات کو اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں کُل چھ افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ حملے حوثی ملیشیا کی جانب سے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملوں کے جواب میں کیے گئے۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ’ایرانی دہشت گردی کے محور‘ کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویتریش نے اسرائیل اور حوثیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے صنعا کے ہوائی اڈے اور دیگر مقامات پر حملوں کو خاص طور پر ’خطرناک‘ قرار دیا ہے۔
غزہ پر حملے
دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے غزہ اور یمن میں حالیہ فضائی حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد جان سے گئے ہیں، جن میں بچوں اور عام شہریوں سمیت طبی عملہ اور صحافی بھی شامل ہیں، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے فلسطینی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جمعرات کو غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 45 افراد مارے گئے، جن میں ہسپتال کے عملے اور صحافی شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیا میں قائم کمال عدوان ہسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ کے مطابق ایک فضائی حملے میں بچوں کے معالج، لیبارٹری کے ٹیکنیشن، دو ایمبولینس ورکرز اور ایک مینٹیننس ملازم سمیت ہسپتال کے پانچ اہلکار جان سے گئے۔
جنوبی غزہ میں خان یونس کے ناصر ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر احمد الفرا کے مطابق، شدید سرد موسم کے باعث تین نوزائیدہ بچوں کی موت واقع ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بچے انتہائی سردی اور ناموزوں حالات میں تھے، جب کہ مائیں غذائی قلت کی وجہ سے اپنے بچوں کو مناسب دودھ نہیں دے پا رہیں۔
جان سے جانے والی ایک تین ہفتے کی ایک بچی، سیلا الفصیح، المواحی کے علاقے میں ایک خیمے میں رہ رہی تھی۔
یہ علاقہ اسرائیلی فوج نے انسانی ہمدردی کے تحت محفوظ زون قرار دیا ہے اور یہاں بڑی تعداد میں بے گھر فلسطینی مقیم ہیں۔
ڈاکٹر احمد الفرا کے بقول خیمے سردی سے تحفظ فراہم نہیں کرتے اور رات کے وقت شدید سردی ہوتی ہے، جب کہ انہیں گرم رکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
دوسری جانب غزہ میں موجود صحافیوں کے مطابق جمعرات کو ایک گاڑی پر میزائل حملے میں پانچ صحافی مارے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ صحافی ’دہشت گرد سیل‘ سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ صحافیوں کی تنظیموں نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صحافی شہری ہیں اور انہیں تحفظ دیا جانا چاہیے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق، حملے حماس کے جنگجوؤں کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ اور یمن میں انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، سات اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت میں اب تک 45 ہزار399 فلسطینی جان سے گئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
یمن میں حملوں کے بعد ایرانی وزارتِ خارجہ نے اسرائیلی کارروائیوں کو ’عالمی امن و سلامتی کی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔ حماس نے بھی ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے یمن کے ’بھائیوں‘ کے خلاف جارحیت کہا۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی پر زور دے رہے ہیں، تاہم صورت حال تاحال مزید کشیدہ ہوتی نظر آ رہی ہے۔