لندن کے میئر صادق خان کو نئے سال کے اعزازت میں ’سر‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ یہ اعزاز پانے والوں کی فہرست میں لیبر پارٹی کی دیگر اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔
سر صادق، جیسا کہ اب انہیں پکارا جائے گا، نے کہا کہ یہ اعزاز حاصل کر نے پر مجھے’واقعی فخر‘ ہے۔
لیکن میئر صادق کے ناقدین نے، جو کہ دارالحکومت میں ایک بس ڈرائیور کے بیٹے ہیں اور جو پچھلے سال تیسری بار انتخاب جیتے، کے دور اقتدار پر تنقید کی اور کہا کہ لندن کے بہت سے رہائشی ’شدید مایوس‘ ہوں گے۔
ایک کنزرویٹو کونسلر کی طرف سے ان کے اس اعزاز کے خلاف ایک پٹیشن شروع کی گئی تھی، پانچ دسمبر کے بعد سے اس پر دو لاکھ سے زائد دستخط ہو چکے ہیں۔
سینیئر لیبر ایم پی ایملی تھارنبری اور سابق لیبر کابینہ کی وزیر پیٹریشیا ہیوٹ کو بھی ڈیم کا خطاب دیا گیا۔ (یہ اعزاز برطانیہ میں خواتین کو دیا جاتا ہے اور مردوں کے ’سر‘ کے اعزاز کی طرح ہوتا ہے۔)
2016 سے میئر سر صادق کا دور کبھی کبھار متنازع رہا ہے۔
ان کے گرین الٹرا لو ایمیشن زون (اولیز) کی توسیع، جس کی وجہ سے زیادہ آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں والوں کو زیادہ بلز ادا کرنے پڑے، کے خلاف احتجاج ہوا۔
احتجاج میں کیمروں اور سائن بورڈز کو نقصان پہنچایا گیا جو نئے زون کے نفاذ کے لیے استعمال ہو رہے تھے۔
اس پالیسی کی غیر مقبولیت کو لیبر پارٹی کی یوکس برج ضمنی انتخابات میں حیرت انگیز شکست کا سبب بھی سمجھا گیا۔
ان پر حال ہی میں کینی بیڈینوچ، جو اب ٹوری پارٹی کی رہنما ہیں، کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ وہ دارالحکومت میں چاقو زنی کے جرائم کو ’سنجیدہ‘ نہیں لے رہے۔
اپنے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جاری تنازعے میں، انہوں نے کہا کہ نومبر میں امریکی صدر کے انتخابی کامیابی سے بہت سے لندن کے باشندے ’پریشان‘ اور ’جمہوری نظام اور خواتین کے حقوق کے لیے اس کے نتائج کے بارے میں خوف زدہ‘ ہوں گے۔
2018 میں، ان کے دفتر نے پارلیمنٹ سکوائر پر امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران ایک غبارے کو اُڑنے کی اجازت دی، جس میں ٹرمپ کو ایک بچے کی صورت میں دکھایا گیا تھا۔
ٹرمپ نے سر صادق خان پر لندن کے میئر کے طور پر ’بہت برا کام‘ کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ وہ ’ایک مکمل ناکام شخص ہیں جنہیں لندن میں جرائم پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ مجھ پر‘۔
وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمے نے سر صادق کو مبارک باد دی اور کہا کہ انہوں نے ’لندن کے سکول کے بچوں کے لیے مفت کھانے فراہم کیے، شہر کی آلودہ ہوا کو صاف کیا اور ریکارڈ تعداد میں کونسل کے مکانات تعمیر کیے۔
’مجھے فخر ہے کہ برطانیہ وہ جگہ ہے جہاں آپ ایک بس ڈرائیور کے بیٹے کے طور پر ایک کونسل سٹیٹ سے شروع کر کے کابینہ میں پہلے مسلمان، ہمارے عظیم دارالحکومت کے میئر اور سلطنت کے سر بن سکتے ہیں۔‘
لیکن کرس فلپ، شیڈو ہوم سیکرٹری نے کہا: ’صادق خان کے دور میں، لندن والوں کو چاقو کے جرائم میں 61 فی صد اضافہ، رہائش کا بحران اور کونسل ٹیکس میں 70 فی صد اضافہ برداشت کرنا پڑا؛ وہ (لندن کے رہائشی) بجا طور پر ناراض ہوں گے کہ ان کو ناکامیوں کے ریکارڈ پر انعام دیا جا رہا ہے۔
’ناکام صادق خان کو انعام دے کر، کیئر سٹارمر نے ایک بار پھر دکھایا کہ لیبر کے لیے پارٹی پہلے، ملک دوسرے نمبر پر ہے۔‘
نائجیل فیریج نے کہا: ’لندن کے لاکھوں باشندے اس اعزاز سے بہت مایوس ہوں گے کیونکہ خان نے ایک ایسے دور کی قیادت کی ہے جس میں تقریباً سب کا معیار زندگی نیچے آیا ہے۔‘
دیگر شعبوں میں، اداکار سٹیفن فرائے اور سابق انگلینڈ مینیجر گیرتھ ساؤتھ گیٹ کو بھی سر کا خطاب دیا گیا۔
ٹیم جی بی کے کئی کھلاڑیوں کو بھی اعزازات دیئے گئے ہیں، جن میں دوڑنے والی کیلی ہاڈکنسن، جو 2024 بی بی سی سپورٹس پرسنالٹی آف دی ایئر منتخب ہوئیں، اور پہاڑوں میں سائیکل چلانے والے ٹام پیڈکاک بھی شامل ہیں، جو پیرس اولمپکس کے بعد یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔
ٹریسی بیکر سیریز کی تخلیق کار جیکولین ولسن کو ادب کے شعبے میں خدمات کے بدلے ’ڈیم گرینڈ کراس‘ (GBE) سے نوازا گیا، جب کہ اداکارہ کیری مولیگن اور ٹیلی ویژن پیش کار ایلن ٹچ مارش کو ’کمانڈر آف دی آرڈر آف دی برٹش ایمپائر‘ (CBE) کا خطاب دیا گیا۔
سب سے بڑا اعزاز نوبل انعام یافتہ ناول نگار سر کازوو ایشیگورو کو دیا گیا، انہیں ادب کے شعبے میں خدمات کے بدلے ’کمپینین آف آنر‘ سے نوازا گیا۔
بادشاہ چارلس نے اپنی کینسر کے علاج کے دوران اپنے میڈیکل ٹیم کے سینیئر عملے کو ذاتی طور پر اعزازات دیے۔
جنرل پریکٹیشنر ڈاکٹر ڈگلس گلاس، جو بادشاہ کے معالج کے طور پر معروف ہیں، اور ان کے معالج پروفیسر رچرڈ لیچ کو بادشاہ اور شاہی خاندان کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں نوازا گیا۔
یہ اعزازات اس سال بادشاہ اور شہزادی آف ویلز کی دہری کینسر کی تشخیص کے بعد دیے گئے ہیں، جس کے دوران شاہ چارلس نے علاج جاری رکھتے ہوئے اپنی بیشتر ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔
ڈاکٹر گلاس نے ملکہ الزبتھ دوم کی معالج کے طور پر خدمات انجام دی تھیں اور وہ اس وقت بھی موجود تھے جب ملکہ کا انتقال ہوا۔
سر صادق خان نے اپنے اعزاز کے بارے میں کہا: ’جب میں لندن کے جنوبی علاقے میں ایک کونسل اسٹیٹ پر پلا بڑھا تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایک دن لندن کا میئر بنوں گا۔
’یہ میری زندگی کا اعزاز ہے کہ میں اس شہر کی خدمت کر رہا ہوں جس سے میں محبت کرتا ہوں، اور میں اس منصفانہ، محفوظ، سبز اور خوش حال لندن کی تعمیر جاری رکھوں گا جو دارالحکومت کے تمام کمیونٹیز کے حق میں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لندن کے جنوبی علاقے ٹوٹنگ میں پیدا ہونے والے صادق خان نے 2005 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے سے قبل انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر کام کیا۔
اس کے بعد وہ گورڈن براؤن کے تحت ایک جونیئر وزیر اور ایڈ ملبینڈ کے تحت شیڈو جسٹس سیکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
2016 میں ان کی کامیابی نے انہیں ایک بڑے مغربی شہر کا پہلا مسلمان میئر بنا دیا جب انہوں نے کنزرویٹو پارٹی کے زاک گولڈ سمتھ کو شکست دے کر بورس جانسن کی جگہ لی۔
سابق لیبر کابینہ کی وزیر پیٹریشیا ہیوٹ کو بھی ’ڈیم‘ کا خطاب دیا گیا، دس سال بعد جب انہیں 1970 کی دہائی میں قومی کونسل فار سویل لبرٹیز کی سربراہی کرنے والی باڈی سے ’غلطی کرنے‘ پر معافی مانگنی پڑی تھی۔ اس باڈی کے بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے ایک گروہ سے تعلقات تھے۔
ایملی تھورن بیری کو بھی ’ڈیم‘ کا خطاب دیا گیا، صرف چند ماہ قبل انہیں انتخاب کے بعد سر کیئر سٹارمر کی پہلی کابینہ سے غیر متوقع طور پر نکال دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ وہ ’فخر اور حیرت‘ دونوں محسوس کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میں اپنی بزرگ خواتین کو یاد کرتی ہوں، جن میں سے کسی کو بھی شادی شدہ خواتین کے طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، اور سوچتی ہوں کہ وہ کتنی خوش ہوں گی یہ دیکھ کر۔
’میرے شوہر کو کچھ سال پہلے سر کا خطاب دیا گیا تھا اور مجھے کبھی بھی ان کا خطاب شیئر کرنے میں اچھا محسوس نہیں ہوا، یعنی خود کو ’لیڈی نیوجی‘ کہنے میں، لیکن ’ڈیم ایملی‘ ایسا نام ہے جس پر مجھے فخر ہو گا۔‘
کنزرویٹو پارٹی کے اینڈی سٹریٹ، سابق ویسٹ مڈلینڈز کے میئر، اور نِک گِب، سابق طویل عرصے تک سکولز کے وزیر، کو بھی سر کا خطاب دیا گیا۔
لیبر پارٹی کی کیرول لنفورتھ کو بھی ایک اعزاز دیا گیا، جنہوں نے سر کیئر سٹارمر کا کوٹ اس وقت اتار لیا تھا جب ایک ہیکلر نے پارٹی کی سالانہ کانفرنس کے دوران ان پر چمک دار پاؤڈر چھڑکا تھا۔
اس وقت کی ویڈیو میں سر کا آستین چڑھاتے ہوئے دکھنا، نے انہیں ایک ممکنہ وزیراعظم کے طور پر مضبوط تصویر پیش کی۔
سر کیئر کا پھر اپنے آستین چڑھانے کا منظر، چاہے وہ حقیقی طور پر ہو یا مجازی طور پر، نے ایک متوقع وزیرِ اعظم کے طور پر ان کا مضبوط تاثر دیا۔
سالانہ فہرست میں کئی سابق ارکان پارلیمنٹ کو بھی اعزازات دیے گئے۔
لِز ٹرس کی اتحادی رکن پارلیمنٹ رانیل جے وردیانہ کو سر کا خطاب دیا گیا ہے، ساتھ ہی رشی سُونک کے سابق نائب چیف وہپ مارکس جونز کو بھی یہ اعزاز ملا۔
سابق لیبر رکن پارلیمنٹ کیٹ ہولرن، جو جولائی میں اپنے بلیک برن سیٹ پر آزاد امیدوار عدنان حسین کے ہاتھوں ہار گئیں، کو ’کمانڈر آف دی آرڈر آف دی برٹش ایمپائر‘ (CBE) کا خطاب دیا گیا۔
وزیر اعظم آفس نے اعزازات کی اس فہرست کو ایک ’مکمل طور پر آزاد عمل‘ قرار دیا، جو ایک الگ کمیٹی کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے اور یہ حکومت کے ماتحت نہیں ہے، جبکہ سابق وزرائے اعظم جو ’استعفے کے اعزازات‘ کی فہرست تیار کرتے ہیں، وہ حکومت کے ماتحت ہوتی ہے۔
نئی فہرست میں برطانیہ بھر سے 1,200 سے زائد افراد کو اعزازات دیے گئے۔
وزیر اعظم نے کہا: ’ہر روز، عام لوگ اپنی کمیونٹیز کے لیے غیر معمولی کام کرتے ہیں۔
’یہ لوگ برطانیہ کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں اور وہ خدمت کی اس بنیادی قدر کا مظاہرہ کرتے ہیں جسے میں اس حکومت کے ہر کام میں مرکزی حیثیت دیتا ہوں۔
’نئے سال کی اعزازات کی فہرست ان نامعلوم ہیروز کی خدمات کو سراہتی ہے اور میں ان کے شاندار تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘
© The Independent