ایک حالیہ سائنسی تحقیق کے بعد سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ درخت آپس میں ’گفتگو‘ کے ذریعے خطرات سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ماہر نباتیات ڈاکٹر محمد ابرار شنواری نے یہ گتھی سلجھانے کے لیے ایک مثال دی کہ ’اگر ایک پودے کو اپنی نشوونما کے لیے کسی طرح غذا درکار ہو گی تو وہ ایک ایسا کیمیکل خارج کرے گا جو آس پاس کے دوسرے پودوں کو اس مخصوص پودے کا پیغام پہنچا سکے اور دوسرے پودے پھر وہ کیمیکل خارج کرتے ہیں، جس سے درخواست گزار پودے کو نشوونما میں غذائی مدد مل سکے۔
یہ بھی پودوں کی گفتگو کا ایک انداز ہے۔ ان کیمیکلز کو ’فائٹو کیمیکلز‘ کہا جاتا ہے۔‘
علم نباتات کی تاریخ کافی دلچسپ اور گمبھیر ہر دو طرح کی ہے۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ 10 ہزار سال قبل ’نیو لیتھک انقلاب‘ کے دوران پودوں کا پتہ ملا اور اس کو تحریری طور پہ ریکارڈ کرنا شروع کیا گیا۔ یعنی جب اس دور کے زرعی سماجوں نے پھول پتوں کو پہلی بار اگانا شروع کیا۔
ارسطو اور تھیوفراسٹس کی روایتی کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ قبل از مسیح چوتھی سے پودوں پر باریک بینی سے تحقیق کیا کرتے تھے۔
درختوں کی آبی ضروریات یا ’واٹر ان ٹیک‘ پر تحقیق 1640 میں ’جوہانیس وان ہیلمانٹ‘ نے کی تھی۔
1665 میں رابرٹ ہک‘ نے ’مائیکروسکوپ‘ کی ایجاد سے علم نباتات کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ اور یوں پودوں کے خلیوں کی ساخت کو قریب سے دیکھا جا سکا۔
دوسری طرف 1686 میں ’جان رے‘ نے’ہسٹوریا پلینٹرم‘ نامی کتاب بھی لکھ ڈالی، جو پودوں کی جدید ’درجہ بندی‘ یا ٹیکسانومی کی طرف ایک اہم قدم تھا۔
ارسطو کے شاگرد ’تھیوفراسٹس‘ کو ’بابائے باٹنی‘ مانا جاتا ہے۔
تھیو فراسٹس، سائنسدان، محقق، بوٹینسٹ، بیالوجسٹ اور فلسفی تھے، ان کے کام اور تحقیق کے باعث ہی وہ بابائے باٹنی کہلائے۔
نیچرل سائنسز کے بنگالی ماہر ڈاکٹر جوگندر چندرا بوس نے 19ویں صدی کے اوائل میں پودوں میں ہنسنے، بولنے اور اداس ہونے کے باریک پہلوؤں کو بھی باریک نگاہ سے دیکھا اور اپنی تحقیق کے ذریعے دنیا تک پہنچایا۔
انہوں نےاپنے تجربے کو رقم کرتے ہوئے پودوں میں جذبات تلاش کیے۔
ان کے بقول ’ایک بار میں نے پودے کی ٹہنی کو چھڑی سے مارا جس پر اس کی گروتھ کچھ لمحوں کے لیے جیسے متاثر ہوئی اور وہ ایک طرف ڈھلک سی گئی ور کچھ دیر بعد اپنی تکلیف سے آزاد ہوئی تو وہ ٹہنی دوبارہ اپنی اصل ساخت میں بحال ہو گئی، گویا اس نے میری چھڑی سے لگنے والی ضرب کو محسوس کیا تھا۔‘
باٹنی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ابرار شنواری کا ماننا ہے کہ درخت اپنی جنبش سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور یہ جنبش ان کے تنے سے نہیں ان کی جڑوں سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے یہ جواب مجھے اس وقت دیا جب میں نے اسلام آباد ایف نائن پارک کے دھول میں اٹے درختوں کی بد حالی پہ پہلے تو ایک نظم لکھنے کا سوچا لیکن پھر خیال آیا کیوں نہ اس پر کچھ سائنسی تحقیق بھی کر لی جائے۔
درخت اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ ضروری ’موومنٹ‘ بھی کرتے ہیں۔
اگر مٹی میں کہیں زہریلا مادہ پھیلنے کا اندیشہ ہو تو درخت اس کو بھانپ لیتے ہیں اور ایسے کیمیکلز کا اخراج ممکن بناتے ہیں، جن سے زہریلے مادے کو کنٹرول کر سکیں۔
جب ماحول میں آلودگی بڑھ جاتی ہے، تو درخت ایسے کیمیکل بھی خارج کرتے ہیں، جس سے آلودگی جھڑ سکے اور اپنے سانس لینے کے عمل سے بھی آلودہ مادوں کو روک پاتے ہیں۔ یعنی اپنے لیے ’حفظ ماتقدم‘ سے کام لیتے ہیں۔
بعض پودے جتھوں کی شکل میں بھی رہتے ہیں اور حسب ضرورت ایک دوسرے سے رابطے میں آتے ہیں۔
ان کی ایک مثال ’وائٹ ویڈز‘ کی ہے جو اپنے گرد جڑی بوٹیوں یا پھیلنے والی بیلوں کے درمیان رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا ’فائیٹو‘ کیمیکلز کے ذریعے خیال رکھتے ہیں اور یہ ’سپیشی‘ کے حساب سے ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا ماننا ہے کہ آج کل ایک جیسے پودے ایک ہی احاطے میں اگانے کا ’فیشن‘ ہے، جو پودوں کی بقا کے لیے اچھا نہیں کیونکہ ان کی کیمیائی نشوونما اس سے متاثر ہوتی ہے اور ان میں منفی مقابلہ شروع ہو جاتا ہے، جب کہ جنگلی حیات میں مختلف انواع کے پودے اکٹھے پنپ رہے ہوتے ہیں اور ان کا کیمیکل ایکسچینج فائدہ مند ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ڈاکٹر محمد ابرار شنواری کی تحقیقاتی گفتگو اپنی جگہ اہم ہے لیکن ساتھ ہی پاکستان کے مشہور ’ہارٹی کلچرسٹ‘ توفیق پاشا پودوں کے انس کی بھی بات کرتے ہیں کہ کس طرح ایک پودا اپنے باغبان کو پہچانتا ہے۔
بقول توفیق پاشا ’میرے والد کے فارم پہ چیکو کا ایک پرانا پیڑ تھا جس سے میرے والد کو بہت محبت تھی اور وہ روز ہی اپنے چیکو کے پیڑ کے پاس جاتے اور اس سے باتیں کیا کرتے تھے۔
’وہ درخت 25 برس سے ہمارے فارم میں تھا اور ہم اس کے چیکو کھایا کرتے۔ جس وقت میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو اس کے پانچویں دن وہ صحت مند درخت بھی مر گیا اور اس کی کوئی ظاہری وجہ نہیں دیکھی جا سکی۔‘
یعنی گویا پودے ہوں یا درخت اپنے باغبان سے قربت رکھتے ہیں۔ باٹنسٹ ڈاکٹر شنواری توفیق پاشا کے اس تجربے سے کو بھی پودوں کی کیمیائی کیفیات سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔
’پودے اپنے باغبان کی بات سنتے ہیں ۔ ہم مٹی کھاد دینے میں اگر لاپرواہی کریں یا کمی بیشی کر دیں تو پودے اپنی نشوونما کے جھکاو سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔
’پودوں کے نام بھی اسی اعتبار سے دیے جاتے ہیں، جیسے گلیات میں پایا جانے والا ’چھوئی موئی یا ٹچ می ناٹ‘ یا ’فارگیٹ می ناٹ یعنی مجھے بھلانا نہیں اور سدا بہار وغیرہ۔ُ‘
اس کے علاوہ درخت بھی انسانوں کی طرح اکثر کچھ پودوں کی موجودگی پسند نہیں کرتے۔
اس کو ’الیلوپیتھی‘ کہا جاتا ہے، جس کے ذریعے ایک پودا کسی دوسرے پودے سے لاحق ہونے والے بقا کے خطرے کو بھانپ لیتا ہے اور ایسے ’الیلوپیتھک کیمیکلز‘ کا اخراج کرتا ہے، جن کی وجہ سے دوسرے پودے کی ’گروتھ‘ رک بھی سکتی ہے اور یکسر ختم بھی کی جا سکتی ہے۔
اور یہ کافی عام ردعمل ہے جو ’دفاعی‘ طور پہ بھی اختیار کیا جاتا ہے اور ’غصے‘ میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ پودوں کے کانٹے بھی ان کا ’دفاعی نظام‘ ظاہر کرتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق ’الیلوپیتھک‘ مزاج پودوں میں عام پایا جاتا ہے جس کے دوران اگر کسی پودے کی مٹی یا آب و ہوا بدل دی جائے تو وہ ارد گرد کے دوسر پودوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اسے ’فائٹو ٹیررازم‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے دوسری طرف ’فائٹو کیمیکلز‘ اکثر پودوں کی نشوونما کو بڑھاؤ بھی دیتے ہیں، کلائیمٹ چینج سے جوڑ کر دیکھا جائے تو فصلوں کی نشونما رک بھی سکتی ہے۔
اگر پودوں کو 25 ڈگری سے اوپر کے درجہ حرارت پر لگایا جائے تو پودے اپنی نشوونما کو کھو دیتے ہیں، لیکن ’الیلو پیتھی‘ ایسے میں بھی پودوں کی گروتھ کو متاثر نہیں ہونے دیتی۔
یاد رہے پودے روتے بھی ہیں اور ضد بھی کرتے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب کسی شاخ کو کاٹا جاتا ہے اور اس جگہ سے جاری ہونے والا مادہ ’آنسو‘ ہوتا ہے اور اپنے دکھ کا اظہار کرتا ہے۔
اور اگر کسی درخت کو تعمیراتی کام کے دوران اس کے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی جائے تو اکثر درخت دیوار پھاڑ کے بھی تناور کھڑے نظر آتے ہیں، یہ ان کی ضد کو آشکار کرتا ہے۔
بسا اوقات پودوں کی مٹی اور ماحول کو بدل دینا ان کو ناراض بھی کر دیتا ہے اور وہ احتجاج بھی کرتے ہیں۔
اسلام آباد میں امپورٹ کردہ ’توت‘ کے درخت اسلام آباد میں اپنے ’پولن‘ کے ذریعے ناگواری کا اظہار کر رہے ہیں، جو برسوں سے جاری ہے، کیونکہ انہیں جاپان سے امپورٹ کیا گیا یہ توت پاکستان کے ماحول کو اپنانے سے قاصر ہے اور ہم اسے ’پولن الرجی‘ کا نام دے بیٹھے ہیں۔