کیا ایگزیکٹیو اپنے خلاف جرم میں جج بن سکتا ہے؟ جسٹس مندوخیل کا فوجی عدالتوں پر سوال

فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آئینی بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹیو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔

29 جنوری، 2021 کو ایک شخص اسلام آباد میں واقع سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

سپریم کورٹ میں منگل کو سویلینز کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’وزارت دفاع ایگزیکٹیو کا ادارہ ہے، اگر ایگزیکٹیو کے خلاف کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟‘

آج سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے۔ آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹیو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے۔‘ 

اس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹیو فیصلہ کر سکتا ہے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلنز کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے؟‘ تو خواجہ حارث نے بتایا کہ ’اپیل وزارت دفاع نے دائر کی۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’قانون میں انسداد دہشت گردی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹیو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟‘ 

خواجہ حارث نے جواباً کہا ’آپ کی بات درست ہے۔‘ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ممبران تک محدود کیا گیا ہے۔‘

خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، آرمی ایکٹ صرف مسلح افواج تک محدود نہیں، اس میں دیگر کیٹیگریز شامل ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آئین کا آرٹیکل 8(3) کے تحت افواج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالے سے ہے، کیا فوج داری معاملے کو آرٹیکل8(3) میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ آئین میں سویلنز کا نہیں پاکستان کے شہریوں کا ذکر ہے۔‘

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’افواج پاکستان کے لوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں جتنے دوسرے۔‘ 

جسٹس جمال مندوخیل نے اس موقعے پر کہا کہ ’یہی تو سوال ہے کہ افواج پاکستان کے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘ 

اس پر خواجہ حارث نے کہا ’بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔‘

’اگر شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا‘ 

جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل سے استفسار کیا ’کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہو گا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر اس کو ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟‘ 

خواجہ حارث نے جواب دیا ’یہ تو آپ نے ایک صورت حال بتائی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘  جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقعے پر کہا ’یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، اگر وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا، صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہو گا۔‘

فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ سویلینز کوٹ لکھپت جیل میں منتقل 

مجرم حسان اللہ نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی نے آج سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ ’میرے بیٹے سمیت لاہور کے کچھ قیدیوں کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا گیا ہے، جیل منتقلی کے باوجود ان سے عام قیدیوں والا سلوک نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہا کہ ’جیل میں انہیں باقی قیدیوں سے الگ سخت سکیورٹی میں رکھا گیا ہے، جیل میں بھی ان پر ملٹری کورٹس والی تمام سختیاں لاگو ہیں۔‘

حفیظ اللہ نیازی نے مزید کہا کہ ملٹری کورٹس نے صرف کہہ دیا فلاں کو دو سال قید، فلاں کو تین سال قید۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ’کیا ملٹری کورٹس نے وجوہات پر مبنی فیصلے نہیں دیے؟‘ تو حفیظ اللہ نیازی نے جواب دیا کہ ’فیصلوں میں کوئی وجوہات نہیں دی گئیں۔‘

اس موقعے پر جسٹس جمال مندوخیل نے انہیں کہا کہ ’یہ جب آپ اپیل میں جائیں تو ریکارڈ مانگ لیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اب وہ انڈر ٹرائل قیدی نہیں، اب ان قیدیوں کو بھی تمام حقوق ملنے چاہییں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت کا کردار صرف قیدیوں کو جیل حکام کے حوالے کرنا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی کہ فوجی عدالتوں سے آئے قیدیوں کو سہولیات مل رہی ہیں یا نہیں کل رپورٹ دیں۔

عدالت نے مزید دلائل کے لیے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی اور کہا کہ ’کل بھی آئینی بنچ صرف ملٹری کورٹس کیس سنے گا۔‘

فوجی عدالتوں سے سویلینز کی سزائیں

13 دسمبر کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو نو مئی کے کیسز میں 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ’فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔‘ 

آئینی بینچ نے حکم دیا تھا کہ ’جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے انہیں رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔‘ 

اس فیصلے کے بعد 21 دسمبر کو نو مئی کے کیس میں 85 سویلیز کو فوجی عدالتوں سے 10 سال قید بامشقت تک کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 25 مجرمان کو 10 سال تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی ہیں۔

26 دسمبر کو آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں مزید 60 ملزمان کی سزاؤں کا اعلان کیا تھا۔ سزائیں پانے والوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی سمیت دیگر مجرمان کو 10 سال تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئیں۔

دو جنوری کو پاکستان فوج کے کورٹس آف اپیل نے 19 مجرمان کی سزاؤں میں معافی کا اعلان کیا تھا۔ 

آئی ایس پی آر کےمطابق سزاؤں پر عمل درآمد کے دوران 67 مجرمان نے قانونی حق استعمال کرتے ہوئے رحم اور معافی کی پٹیشنز دائر کیں۔

’48 پٹیشنز کو قانونی کارروائی کے لیے’کورٹس آف اپیل’ میں نظرثانی کے لیے ارسال کیا گیا، 19 مجرمان کی پٹیشنز کو خالصتاً انسانی بنیادوں پر قانون کے مطابق منظور کیا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان