کوئٹہ: گیس کی کمی اور سردی کے توڑ کے لیے روایتی انگیٹھی کی مقبولیت میں اضافہ

سوئی گیس کے پریشر میں کمی سے پریشان کوئٹہ کے شہریوں نے روایتی انگیٹھیوں کی صورت میں سردی سے بچنے کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔

بلوچستان میں قدرتی گیس 1955 میں سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی تھی جس کے بعد صوبے کے لوگوں کی زندگی میں اس کی اہمیت بڑھ گئی۔

اس سے قبل بلوچستان میں سردیوں کے موسم میں شہری لکڑیوں یا کوئلے کی انگیٹھی جلایا کرتے تھے جس سے سرد موسم میں کمرہ گرم رہتا تھا لیکن سوئی گیس کی دریافت اور اس کی روز مرہ زندگی میں بڑھتے ہوئے استعمال نے نئی نسل کو روایتی انگیٹھی سے ناآشنا کر دیا تھا لیکن اب بلوچستان میں سردی کے موسم میں عموماً گیس پریشر کا مسئلہ رہتا ہے جس کی وجہ سے شہری کافی پریشان رہتے ہیں۔

بلوچستان میں ان دنوں سردی کا راج ہے سرد اور یخ بستہ ہوائیں چلنے سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں خون جما دینے والی سردی پڑ رہی ہے، ایسے میں یہاں رہنے والے شہری جسم کو گرم رکھنے کے لیے گرم کھانوں کے ساتھ ساتھ گرم  ملبوسات کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ اس کے علاؤہ روایتی انگیٹھی بھی سردی کے توڑ کے لیے دوبارہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوئٹہ کی ’ٹک ٹک‘ گلی میں ان دنوں انگیٹھیاں بنانے والے کارگروں کے ہتھوڑوں کا شور زیادہ سنائی دیتا ہے جس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ میں سردی کی شروعات ہو چکی ہے اور قدرتی گیس کی کمی اور لوڈ شیڈنگ سے پریشان شہریوں نے انگیٹھیوں کی خریداری شروع کر دی ہے جس سے اس کے کاروبار میں اضافہ دیکھنے کے مل رہا ہے۔

انگیٹھی بنانے والے کاریگر کے مطابق آج کل ایک دن میں 20 سے زیادہ انگیٹھیاں فروخت ہو جاتی ہیں جب کہ ایک انگیٹھی کی قیمت دو ہزار سے سے لے کر پانچ ہزار روپے تک ہے۔

47 سالہ نور محمد پچھلے 15 سالوں سے کوئٹہ شہر کی ’ٹک ٹک گلی‘ میں انگیٹھیاں بنا رہے ہیں جن کے مطابق ایک انگیٹھی بنانے کے لیے کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔

ان کے بقول: ’ان دنوں انگیٹھیوں کی مانگ میں اضافہ ہے جس کی وجہ سے وقت پر آڈر پورے نہیں کرپا رہے ہیں۔ تین کاریگر ایک دن میں صبح سے شام تک 10 ہی انگیٹھیاں بنا پاتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ انگیٹھی کو بنانے کے لیے پہلے ہم ڈرم کو کاٹ کر چادر بناتے ہیں اور اس کے بعد ایک ڈبہ لگانے کے بعد اسے انگیٹھی کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔

کوئٹہ کے رہائشی 43 سالہ امداد علی گھر کے لیے انگیٹھی خریدنے کوئٹہ کی ٹک ٹک گلی آئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’آج کل کوئٹہ میں گیس کے بھاری بل تو آتے ہیں لیکن پائپ میں گیس نہیں آتی۔ یہ چولہہ (انگیٹھی) جو ہم گھر لے جاتے ہیں اس کے جلانے سے کمرہ دیر تک گرم رہتا ہے بچے بھی نزلہ زکام  اور دیگر بیماریوں سے بچ جاتے ہیں۔‘

 امداد علی کے بقول: ’ایک بار انگیٹھی میں لکڑی جلانے کے بعد چار سے پانچ گھنٹے آرام سے گزر جاتے ہیں اس پر چائے اور کھانا بھی بنایا جا سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان