یورینیم مائن کے مغوی ملازمین کی ویڈیوز وائرل، بازیابی کی کوششں جاری

سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز وائرل ہیں، جن میں نظر آنے والے افراد اپنی رہائی کے لیے اغوا کاروں کے کچھ مطالبات بیان کرتے نظر آئے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس کے ایک عہدیدار نے ہفتے کو بتایا ہے کہ قبول خیل یورینیم مائن کے مغوی ملازمین کی بازیابی کے لیے اغواکاروں سے بات چیت کے لیے علاقہ مشران کی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے، جب کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے عہدیداروں کو بھی اتوار (12 جنوری) کو میٹنگ کے لیے بلایا گیا ہے۔

نو جنوری کو نجی کوچ میں سوار قبول خیل یورینیم مائن کے 16 ملازمین اور ڈرائیور کو نامعلوم مسلح افراد نے گاڑی سے اتار کر اغوا کر لیا تھا جبکہ گاڑی کو آگ لگا دی گئی تھی۔

اسی روز پولیس نے بتایا تھا کہ مغویوں میں سے آٹھ کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ دیگر کی بازیابی کے لیے آپریشن جاری ہے۔

تاحال کسی نے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم گذشتہ ہفتے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ مختلف اداروں کو بھی ہدف بنائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز وائرل ہیں، جن میں نظر آنے والے افراد اپنی رہائی کے لیے اغوا کاروں کے کچھ مطالبات بیان کرتے نظر آئے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ایسی ہی ایک ویڈیو، جس کی انڈپینڈنٹ اردو آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں کر سکا، میں چند افراد کے ساتھ بیٹھے ایک شخص کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’آج 11 جنوری 2025 ہے۔ طالبان کی قید میں ہمارا آج تیسرا دن ہے۔ پرسوں یہ اطلاع آئی تھی کہ مجاہدین نے ان لوگوں کو رہا کردیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی ہم 10 بندے ان کی تحویل میں ہیں۔‘

وہ شخص مزید کہتا ہے: ’اب ان کی طرف سے کچھ مطالبات سامنے آئے ہیں۔ حکومت وقت سے گزارش ہے کہ ان پر فوری عملدرآمد کیا جائے کیونکہ ہماری رہائی ان مطالبات کے پورا ہونے سے مشروط ہے۔‘

جن مطالبات کا ویڈیو میں ذکر کیا گیا، ان میں ’مجاہدین کے اہل خانہ کی رہائی، لکی مروت کے گرفتار مجاہدین کی رہائی، مجاہدین کے گھروں کو مسمار نہ کرنے کی یقین دہانی اور مسمار کیے گئے گھروں کا معاوضہ دیا جانا‘ شامل ہے۔

اس حوالے سے لکی مروت پولیس کے ایک عہدیدار نے، جو مغویوں کی بازیابی کے حوالے سے پیش رفت سے واقف ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ویڈیو میں نظر آنے والے لوگ وہی ہیں جو اغوا ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے مغویوں کی تعداد کے بارے میں بتایا کہ نجی ڈرائیور سمیت 17 افراد تھے، جن میں سے آٹھ کو بازیاب کروایا جا چکا ہے۔

تاہم عہدیدار کے مطابق: ’ویڈیو میں 10 افراد کا بتایا جا رہا ہے تو شاید ان میں سے کچھ ایک کنڈیکٹر ہوں لیکن ہمارے پاس 17 افراد کی تفصیلات ہیں، جو اغوا ہوئے تھے۔‘

عہدیدار نے یہ  بھی بتایا کہ اغواکاروں سے بات چیت کے لیے علاقہ مشران کی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جبکہ اس سلسلے میں اٹامک انرجی کمیشن کے عہدیداروں کو بھی اتوار (12 جنوری) کو میٹنگ کے لیے بلایا گیا ہے۔

مقبول خیل یورینیم مائن کے مغوی ملازمین کے بازیابی کے حوالے سے گذشتہ روز لکی مروت میں ایک جرگہ بھی منعقد ہوا تھا جس میں لکی مروت سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی جوہر محمد خان سمیت دیگر مشران شریک ہوئے تھے۔ 

جرگے میں شریک پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی جوہر محمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آج ہمیں اختیار مل گیا کہ وہ اغواکاروں سے مغویوں کی بازیابی کے لیے مذاکرات شروع کریں۔‘

قبول خیل یورینیم کی کان 1986 میں دریافت ہوئی تھی، جہاں مختلف تجربات کے بعد 1995 میں کان کنی کا آغاز کیا گیا۔

لکی مروت میں گذشتہ کچھ عرصے سے امن و امان کی صورت حال خراب ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملے معمول بن گئے ہیں۔

لکی مروت پولیس نے کچھ عرصہ قبل ضلع میں امن و امان کی مخدوش صورت حال پر دھرنا بھی دیا تھا اور حکومت سے حالات قبول کرنے کی اپیل کی تھی۔ 

خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ابتدا ہی سے شدت پسندی سے متاثر رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شمالی و جنوبی وزیرستان شامل ہیں، تاہم ان اضلاع سمیت لکی مروت اور بنوں بھی ماضی میں شدت پسند گروپوں کا گڑھ رہا ہے۔

لکی مروت میں 2010 میں سب سے بڑا حملہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے، جب لکی مروت کے ایک والی بال گراؤنڈ میں دھماکہ ہوا تھا، جس میں 140 سے زائد افراد جان سے چلے گئے تھے۔

جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا تھا، اسے اب ’بیواؤں کی بستی‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اس گاؤں کے گھروں میں تقریباً تمام مرد اس دھماکے میں جان سے چلے گئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان