معروف اطالوی قلعے کے نیچے چھپے رازوں سے پردہ اٹھ گیا

میلان میں پندرہویں صدی میں تعمیر کے بعد سے یہ قلعہ اقتدار کے مرکز کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور برسوں سے اس کے زیرِ زمین چیمبرز کے متعلق بے شمار افسانے گردش کرتے رہے ہیں۔

23 مئی 2019 کو سیاح میلان کے سفورزا قلعے کا دورہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

سائنس دانوں نے میلان کے 15ویں صدی کے اطالوی قلعے ’سفورزا‘ کے نیچے چھپی ہوئی ایسی تعمیرات دریافت کی ہیں، جو مشہور مصور اور انجینیئر لیونارڈو ڈاونچی کی تصاویر میں دکھائے گئے خفیہ راستوں کی موجودگی کا اشارہ دیتے ہیں۔

یہ قلعہ آج بھی اٹلی کی تاریخ کی علامت کے طور پر موجود ہے، جو کافی عرصے سے مورخین، ماہرِ تعمیر اور انجینیئروں کے تخیلات کو مسحور کرتا رہا ہے۔

پندرہویں صدی میں تعمیر کے بعد سے یہ قلعہ ایک حصار، رہائش گاہ اور اقتدار کے مرکز کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور برسوں سے اس کے زیرِ زمین کمروں کے متعلق بے شمار افسانے گردش کرتے رہے ہیں۔

ان کہانیوں میں سے ایک میلان کے ڈیوک لوڈوویکو اِل مورو کا افسانہ ہے، جو مبینہ طور پر ایک خفیہ راستے کے ذریعے اپنی اہلیہ بیٹریس ڈی ایسٹ سے ملاقات کرنے جاتے تھے۔

یہ زیرِ زمین راستہ مشہور مصور اور مختلف علوم میں مہارت رکھنے والے لیونارڈو ڈاونچی کی تصاویر میں بھی دکھایا گیا تھا۔

اب ایک تحقیق میں جدید ترین گراؤنڈ پینیٹریٹنگ ریڈار ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جس سے یہ نیا ثبوت ملا ہے کہ اس طرح کی زیر زمین راہداریاں اور تعمیراتی خصوصیات واقعی قلعے کے نیچے موجود ہو سکتی ہیں۔

تازہ ترین ریڈار سروے سے قلعے کے نیچے سطح زمین کے غیر معمولی نقوش کا پتہ چلا جو پوشیدہ ڈھانچوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی زمین میں برقی مقناطیسی لہریں خارج کرتی ہے اور منعکس ہونے والے سگنلز کا تجزیہ کر کے مٹی کی ترکیب، کثافت اور خالی جگہوں کی موجودگی میں تغیرات کی نشاندہی کرسکتی ہے۔

ریڈار سروے کے ذریعے محققین سفورزا قلعے کا ایک متوازی ڈیجیٹل ماڈل بنانے کی امید رکھتے ہیں، جو قلعے کی تاریخی تبدیلیوں کی کھوج کے لیے ایک انٹرایکٹو ٹول کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق میں شامل ماہرِ تعمیر فرانسسکا بیولو نے کہا: ’گراؤنڈ پینیٹریٹنگ ریڈار نے تھری ڈی ماڈل میں ایسی جگہوں کے بارے میں معلومات شامل کیں جو معلوم تو تھیں مگر ان تک رسائی ممکن نہیں تھی، جس سے نئے راستوں کا پتہ چلا اور خفیہ راستوں پر مزید تحقیق کے لیے نئے خیالات سامنے آئے۔‘

سائنس دان امید رکھتے ہیں کہ اس بحالی میں آگمنٹڈ رئیلٹی (اے آر)  ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا تاکہ لوگوں کے تاریخ کے ساتھ تعامل کا انداز بدل سکے۔

تحقیقات کے نتائج نے نہ صرف قلعے کے نیچے چھپے ممکنہ رازوں سے پردہ اٹھایا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجیز دنیا بھر میں دیگر تاریخی مقامات کی تحقیق کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔

محققین نے لکھا: ’یہ قلعہ صرف ایک یادگار نہیں ہے بلکہ یہ کہانیوں کا خزانہ ہے جو سنائی جانے کی منتظر ہیں، اس کے ہر پتھر کی کہانی ان لوگوں کی زندگیوں اور وراثت کی نمائندگی کرتی ہے جو اس سے پہلے یہاں آئے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’قلعے سے جمع کی گئی معلومات تعلیمی کمیونٹی میں تحقیق کے نئے راستوں کو فروغ دے سکتی ہیں اور خفیہ راستوں اور ان کے تاریخی بیانیوں میں موجود کردار پر مزید تحقیق کی راہیں کھول سکتی ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ