سکیورٹی، صحت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے حوالے سے کی گئی ایک نئی تحقیق میں پاکستان سمیت دنیا کے ان ممالک کا انکشاف کیا گیا ہے، جہاں 2025 میں جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔
کمپنی انٹرنیشنل ایس او ایس کے مرتب کردہ رسک میپ کے مطابق صومالیہ، سوڈان، جنوبی سوڈان اور مرکزی افریقی جمہوریہ کو انتہائی سکیورٹی خطرات کے حوالے سے دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک ممالک قرار دیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ یمن، لیبیا، عراق، افغانستان، شام اور یوکرین بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
وہ ممالک جہاں سکیورٹی کا ’سب سے زیادہ‘خطرہ ہے، ان میں مالی، ایتھوپیا، نائیجیریا، جمہوریہ کانگو، پاکستان، میانمار، پاپوا نیو گنی، وینزویلا، ہیٹی اور ہونڈراس شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سالانہ میپ مختلف خطرات جیسے سکیورٹی کے خطرات، طبی خطرات، موسمیاتی تبدیلی اور ذہنی صحت کے خطرات کا جائزہ لیتا ہے تاکہ دنیا بھر میں سفر کرنے والوں اور کاروباروں کو ممکنہ خطرات کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔
یہ نقشہ تنظیموں اور کاروباروں کو ان خطرات کے بارے میں درجہ بندی فراہم کرتا ہے، جن کا اثر متنازع واقعات جیسے جنگوں، متعدی بیماریوں اور موسمی حالات کے اثرات کی بنا پر ہوتا ہے۔
ہر ملک کا جائزہ مختلف خطرات کے لحاظ سے پانچ سطحوں پر کیا جاتا ہے، جن میں سے سکیورٹی کے لیے ’غیر اہم‘ سے لے کر ’انتہائی‘ تک کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور طبی خطرات کے لیے ’کم‘ سے ’بہت زیادہ‘ تک۔
اس سال برطانیہ کو تمام تینوں خطرات کی کیٹیگریز میں ’کم‘ درجہ دیا گیا، سوائے ذہنی صحت کے، جس کا سکور 15 سے 17.5 فیصد تک کی آبادی پر مشتمل تھا، جو کہ دوسرا سب سے زیادہ سکور تھا۔
کمپنی نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح مختلف خطوں میں 2024 میں تنازعات کی وجہ سے خطرے کے عوامل میں اضافہ ہوا ہے، جیسے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت اور سوڈان کی جنگ۔
انٹرنیشنل ایس او ایس کا کہنا ہے کہ سوڈان، لبنان، اسرائیل، عراق اور میانمار میں 2024 میں تنازعات کے اثرات کی وجہ سے ان ممالک کے خطرے کی درجہ بندی میں اضافہ کیا گیا ہے۔
وہ ممالک جہاں سکیورٹی کا ’سب سے زیادہ‘خطرہ ہے، ان میں مالی، ایتھوپیا، نائیجیریا، جمہوریہ کانگو، پاکستان، میانمار، پاپوا نیو گنی، وینزویلا، ہیٹی اور ہونڈراس شامل ہیں۔
سکیورٹی خطرات کی درجہ بندی میں اضافے والے دیگر خطوں میں نیو کیلیڈونیا شامل ہے، جس کا درجہ ’کم‘ سے بڑھا کر ’درمیانہ‘ کر دیا گیا ہے، جو طویل عرصے تک سماجی بدامنی، اقتصادی زوال اور اس سے متعلق جرائم کے اثرات کی وجہ سے ہوا ہے۔
انٹرنیشنل ایس او ایس کی عالمی سکیورٹی ڈائریکٹر سلی لیولن نے انکشاف کیا کہ اس سال کمپنی نے کسی ملک کے سکیورٹی خطرے کے درجہ کو کم نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’جغرافیائی سیاسی کشیدگیاں سب سے اہم محرک رہی ہیں، جیسے سوڈان اور لبنان میں جہاں تنازعات کی شدت اور پھیلاؤ نے اب زیادہ آبادی والے علاقوں کو متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ سے مجموعی خطرے کا درجہ بڑھا ہے۔
’انٹرنیشنل ایس او ایس اُن علاقوں میں کام کرنے والی تنظیموں کو مصدقہ معلومات اور مشورہ فراہم کرتا ہے تاکہ ان کے عملے کی حفاظت کی جا سکے اور جہاں ضرورت ہو، وہاں انخلا کے اقدامات کیے جا سکیں۔‘
طبی خطرات کے حوالے سے اس سال دو اہم تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں، بولیویا کا درجہ ’درمیانہ‘ سے بڑھا کر ’زیادہ‘ کر دیا گیا اور لیبیا کا درجہ ’انتہائی‘ سے کم کر کے ’زیادہ‘ کر دیا گیا۔
انٹرنیشنل ایس او ایس کی علاقائی میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر کیتھرین او ریلے نے کہا: ’طبی خطرات میں تبدیلیاں صحت کی سہولتوں تک رسائی، ادویات کی فراہمی اور انفیکشنز اور بیماریوں کی موجودگی جیسے عوامل کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔
’ڈیٹا پر مبنی ٹولز کا استعمال تنظیموں کے لیے اہم ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر سکیں اور اپنے عملے کو تحفظ فراہم کر سکیں، چاہے وہ سفر کر رہے ہوں یا گھریلو کام کر رہے ہوں۔‘
وہ ممالک جو سکیورٹی خطرے کے لحاظ سے سب سے محفوظ سمجھے گئے ہیں، ان میں کینیڈا، امریکہ، برطانیہ، سپین، فرانس، مراکش اور ویتنام شامل ہیں۔
© The Independent