چوہدری ریاست بمقابلہ ملک نظام!!!

ملک صاحب نے بھی اگر کسی سے وفا کی تو وہ خوش نصیب صرف عمران خان ہی تھے حالانکہ دعوی تو زرداری صاحب اور شریف برادران بھی کرتے ہیں۔

رئیل سٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض 21 جون 2012 کو اسلام آباد میں توہین عدالت کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے باہر نکلتے ہوئے لہرا رہے ہیں (عامر قریشی / اے ایف پی)

انہونی وہ ہے جس کو ہونا ہے اور وہ بھی وقت اور حالات سے بے نیاز۔ زمانے کے انداز بدلے گئے ہیں یا حالات، وقت بدلا ہے یا اوقات، معاملہ الٹ گیا ہے یا معاملات، جو بھی ہے سب کچھ پہلے جیسا نہیں رہا۔

گذشتہ ہفتے کا پاکستان ذرا ’وکھری ٹائپ‘ کا رہا، چینلوں پر ملک ریاض پر لگی خودساختہ پابندی اٹھ گئی یا اٹھوا لی گئی۔

کانوں میں میڈیا ٹائیکون کی آوازیں گونج رہی تھیں یا پھر ٹوں ٹوں کی آوازیں۔۔ یکایک منظر نامہ بدل گیا۔۔ یا خدا یہ ماجرا کیا ہے؟

پاکستان جیسے ملک میں جہاں آزادی اظہار ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا وہاں خود میڈیا ٹائیکونز نے پراپرٹی ٹائیکون کے نام لینے پر پابندی لگا رکھی تھی اور جس جس نے نام لیا اس اس کا نام میڈیا سے غائب کر دیا گیا۔

پاکستان کا ’آزاد‘ میڈیا، جج، جنرل اور سیاست دان، اس دربار میں آئے تو سب ہی ایک ہوئے۔

ملک ریاض پاکستان کے نظام کا نصاب ہیں۔ بلکہ اچھا تو یہ ہو کہ مریم نواز صاحبہ کو مطالعہ پاکستان کے نصاب کا حصہ بنانے کی بجائے ملک ریاض کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

پاکستان کے نوجوانوں کو جہاں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ملک ریاض نے چند دہائیوں میں کامیابی کا سفر کیسے طے کیا وہیں یہ پڑھانے کی ضرورت بھی ہے کہ کس طرح ایک شخص پورے نظام کا ’ضامن‘ بنا، کس طرح طاقت اس کے دروازے کی باندی بنی اور کیسے ریاست سے لے کر سیاست اور صحافت سے عدالت تک سب ملک ریاض کے ’سکے‘ سے بندھے نظر آئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ ایک شخص کیسے ریاست بنا اور ریاست سے زیادہ طاقتور ہوا اور اب ان کے سینے میں طوفان ہے اور راز جو ویڈیوز کی صورت موجود باہر آنے کو تیار ہیں۔

یہ ویڈیوز اگر منظر عام پر آ گئیں تو باکس آفس پر ہر فلم ہٹ ہو گی۔

بہرحال یہ ملک ریاض کا احسان ہے کہ نظام کو جس طرح انہوں نے ’ایکسپوز‘ کیا اس کے بدلے انہیں بے شمار تمغوں میں سے کوئی ایک تمغہ تو دیا جا سکتا ہے بلکہ تمغے کا نام تمغہ ریاض کے نام سے متعارف کرایا جا سکتا ہے۔

ملک صاحب نے بھی اگر کسی سے وفا کی تو وہ خوش نصیب صرف عمران خان ہی تھے حالانکہ دعوی تو زرداری صاحب اور شریف برادران بھی کرتے ہیں۔

ان پر ملک صاحب کے اور ملک صاحب پر ان کے احسانات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اس کے باوجود اگر ملک ریاض کا کاروبار پاکستان میں خطرے میں پڑ چکا ہے اور انہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ریاست سے لڑائی کا اتنا بڑا رسک لے لیا ہے تو اس میں یقیناً سمجھنے والوں کے لیے اشارے موجود ہیں۔

ملک ریاض نے عمران خان کے خلاف گواہی نہ دے کر ریاست سے لڑائی مول لی ہے اور ان کی یہ ’سرمایہ کاری‘ کسی ’ضمانت‘ کے بغیر کیسے ہوسکتی ہے؟ ملک ریاض کی ’نہ‘ میں کس کی ’ہاں‘ ہے یہ راز بھی سامنے آ ہی جائے گا۔

ملک ریاض حسین کے خلاف کارروائی ریاست کی نبض بتا رہی ہے تو ملک ریاض کی نہ بھی کسی ’نبض شناس‘ کی ہی وجہ سے ہی ہو گی۔

ریاست کے لیے بہت سے امتحان ہیں لیکن سب سے بڑا ملک ریاض ہی ثابت ہوں گے کیونکہ جگہ جگہ وہ سب فائلیں آڑے آئیں گی جن کو پہیے لگائے گئے تھے۔

دیکھتے ہیں چوہدری ریاست زیادہ مضبوط ہے یا ملکی نظام؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر