سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے نکتہ اٹھایا کہ ’ایک ہی دن میں جی ایچ کیو سمیت مختلف مقامات پر حملے ہوئے، کیا سابق وزیراعظم نے نو مئی واقعات کی مذمت کی کہ یہ غلط ہوا؟‘
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ’آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آ جائے تو آدھا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘
عمران خان کے وکیل عزیر کرامت بھنڈاری نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی متفرق درخواست عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، عمران خان نے نو مئی کی مذمت اپنی تحریری معروضات میں بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے جو ذمہ دار ہیں انہیں سزا دی جائے، مذمت کرنے کا بھی مطلب نہیں کہ بانی پی ٹی آئی سرکاری مؤقف تسلیم کرتے ہیں۔‘
جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب سن کر کہا کہ ’مذمت کرنا اچھی بات ہے۔‘
آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے پیر کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔
بینچ میں دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل عزیر کرامت بھنڈاری نے جمعرات کو دلائل شروع کیے تھے، جو پیر کو بھی جاری رہے۔
کیا شکایت کنندہ اپنے معاملے پر خود جج ہو سکتا ہے؟
جسٹس مندوخیل نے سماعت کے دوران سوال اٹھایا کہ ’کیا پارلیمنٹ پر حملہ ہو تو پارلیمنٹ ٹرائل کے لیے الگ عدالت بنائے گی، ایگزیکٹیو اور عدلیہ کو آئین میں الگ الگ رکھا گیا ہے، ملٹری ٹرائل میں شکایت کنندہ خود ایگزیکٹیو ہوتا ہے، کیا شکایت کنندہ اپنے معاملے پر خود جج ہو سکتا ہے؟‘
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ پر حملہ ہو توٹرائل کہاں پر ہو گا؟‘ عزیز بھنڈاری نے جواب دیا ’ہائی کورٹ کیا اس سپریم کورٹ پر حملہ ہو چکا ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے عمران خان کے وکیل سے کہا ’اگر آپ فوجیوں کی حد تک کورٹ مارشل کو درست مانتے ہیں تو بات آرٹیکل 175 کے دائرے سے باہر نکل گئی، ذاتی طور پر جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں، ہر وکیل کے دلائل مختلف ہیں سب کو اکٹھا کرنے کےساتھ عدالتی فیصلہ بھی دیکھنا ہے۔‘
جسٹس امین الدین خان اس موقع پر کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں سب مل کر ملبہ ہمارے گلے ڈالیں گے۔
عزیز بھنڈاری نے جواباً کہا کہ ’آرٹیکل آٹھ کا ذیلی سیکشن تین صرف آرمڈ فورسز کے لیے ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’میرا خیال ہے بنچ وکلا کےدلائل کو مکس کر رہا ہے، سلمان اکرم راجہ نے بھارت میں کورٹ مارشل کے لیے الگ فورم کی بات کی تھی، عدالت دلائل کی پابند نہیں آئین کے مطابق خود بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔‘
آرمی آفیسر چھٹی پر جرم کرے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ’سویلین آفیسر کے خلاف تادیبی کار
روائی میں سزا کا اختیار نہیں دیا گیا، ملٹری کورٹ میں سزا کا اختیار دیا گیا ہے اگر آرمی آفیسر چھٹی پر جرم سرزد کرے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟ کیا ملٹری کورٹ کا اختیار بہت وسیع ہے یا محدود ہے؟ کراچی میں رینجرز اہلکاروں کا ٹرائل سول کورٹ میں ہوا، آئین پارلیمنٹ بناتی ہے، قانون سازی آئین کے مطابق ہی ہو سکتی ہے، کوئی قانون جو آئین سے مطابقت نہ رکھے نہیں بنایا جا سکتا، ہمارا المیہ یہی ہے کہ قانون کو سیاست کی نظر کر دیا جاتا ہے۔‘
وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ ’ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل کارروائی کو 1962 کا آئین قبول کرتا تھا۔ آرمی ایکٹ کالعدم ہوگیا تو بھی انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے، ایک سے زائد فورمز موجود ہوں تو دیکھنا ہو گا کہ ملزم کے بنیادی حقوق کا تحفظ کہاں یقینی ہو گا، آئین کا آرٹیکل 245 فوج کو عدالتی اختیارات نہیں دیتا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا کورٹ مارشل کی عدالتی کارروائی نہیں ہوتی؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عذیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ ’کورٹ مارشل عدالتی اختیار ہوتا ہے لیکن صرف فوجی اہلکاروں کے لیے سویلنز کے لیے نہیں۔‘
آرٹیکل 245 والی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کرے گی؟
عذیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’فوج آرٹیکل 245 کے علاوہ سویلینز کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی، اگر کوئی خفیہ اختیار فوج کو ہے تو دکھا دیں ہم مان لیں گے، سویلین حکام ہر صورت میں فوج سے بالاتر ہوتے ہیں، کمانڈنگ افسر کا ملزمان کی حوالگی لینا فوج کی سویلین پر بالادستی کے مترادف ہے۔‘
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’سویلنز کی ایک کیٹیگری بھی آرمی ایکٹ کے زمرے میں آتی ہے یہ تفریق کیسے ہو گی کہ کونسا سویلین آرمی ایکٹ میں آتا ہے اور کون سا نہیں، آرٹیکل 245 کا حوالہ تو اس کیس میں غیر متعلقہ ہے، آرٹیکل 245 والی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کرے گی؟ جی ایچ کیو پر حملہ ہو تو کیا آرٹیکل 245 کے نوٹیفیکیشن کا انتظار کیا جائے گا؟‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین میں فوج کو دو طرح کے اختیارات دیے گئے ہیں، ایک اختیار دفاع کا اور دوسرا سول حکومت کی مدد کرنے کا۔‘
وکیل نے جواب دیا کہ ’کوئی گولیاں چلا رہا ہو تو دفاع کے لیے کسی کی اجازت نہیں لینا پڑتی۔ جب حملہ ہو تو پولیس اور فوج سمیت تمام ادارے حرکت میں آتے ہیں، سپریم کورٹ ماضی میں لیاقت حسین کیس میں یہ نکتہ طے کر چکی ہے، عدالت قرار دے چکی فوج اگر کسی حملہ آور کو گرفتار کرے گی تو سول حکام کے حوالے کیا جائے گا، فوج پکڑے گئے بندے کے حوالے سے سول حکام کی معاونت ضرور کر سکتی ہے، ہر ادارے کو اختیارات آئین سے ہی ملتے ہیں۔‘
فوجی اور سویلین مل کر ایکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ٹرائل کہاں ہو گا؟
جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ ’اگر فوجی اور سویلین مل کر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ٹرائل کہاں ہو گا؟‘
وکیل نے جواب دیا کہ ’ایسی صورت میں ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہی ہو گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ’آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آ جائے تو آدھا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘
جسٹس جمال نے مزید کہا کہ ’کہتے ہیں احتیاط علاج سے بہتر ہے، دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے سے قبل اسکا سدباب کیوں نہیں کرتے۔‘
جسٹس حسن اظہر رضوی نے اس موقع پر کہا کہ ’تاریخ دیکھیں تو 1971 میں بھی فوجی تنصیبات پر حملے ہو رہے تھے، یہاں ایک سیاسی جماعت کسی لیڈر کے گھر، گورنر ہاؤس یا کسی تھانے پر حملہ نہیں کر رہی، یہاں فوجی تنصیبات پر ایک ہی وقت میں مختلف شہروں پر حملے کیے گئے اگر یہی صورت حال رہی تو انارکی پھیلی گئی، جو مستقبل کے لیے خطرناک ہو گی ایک کہاوت ہے جس کے ہاتھ میں ہتھوڑی ہو اسے ہر چیز کیل نظر آتی ہے۔‘
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے ’ملٹری کو ازخود اختیار نہیں ملا بلکہ پارلیمنٹ کے قانون کے ذریعے یہ اختیار ملا ہے۔‘
مزید دلائل کے لیے عدالت نے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔