صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انگریزی کو امریکہ کی سرکاری زبان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسے ملک میں اتحاد پیدا کرے گی جو دنیا بھر سے آنے والے تارکین وطن کی وجہ سے متنوع بن چکی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ہفتے کو صدر ٹرمپ کا دستخط شدہ ایک ایگزیکٹو آرڈر شائع کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’انگریزی کو بہت پہلے ہی قومی سطح پر سرکاری زبان قرار دے دینا چاہیے تھا۔‘
ایگزیکٹو آرڈر میں مزید کہا گیا: ’قومی سطح پر مقرر کردہ زبان کسی متحد اور مربوط معاشرے کا بنیادی جزو ہے اور امریکہ اس شہری آبادی سے مضبوط ہوتا ہے جو ایک مشترکہ زبان میں آزادانہ طور پر خیالات کا تبادلہ کر سکتی ہے۔‘
وائٹ ہاؤس نے تسلیم کیا ہے کہ امریکہ میں 350 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں تاہم حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انگریزی ’ہمارے ملک کے قیام کے وقت سے ہی قومی زبان رہی ہے اور ہمارے ملک کے تاریخی حکومتی دستاویزات، بشمول آزادی کا اعلامیہ اور آئین، سب انگریزی میں لکھے گئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت کے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں تقریباً چھ کروڑ 80 لاکھ افراد اپنے گھروں میں انگریزی کے علاوہ کوئی اور زبان بولتے ہیں۔
اگرچہ انگریزی امریکہ میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے لیکن ملک میں چار کروڑ سے زائد افراد گھروں میں ہسپانوی زبان بولتے ہیں۔
دیگر تارکین وطن گروہوں کے ساتھ امریکہ کی پیچیدہ لسانی ساخت میں درجنوں مقامی امریکی زبانیں بھی شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ کے اس نئے حکم نامے نے 1990 کی دہائی میں اس وقت کے صدر بل کلنٹن کے جاری کردہ صدارتی آرڈر کو منسوخ کر دیا جس کے تحت وفاقی ایجنسیوں اور وفاقی فنڈنگ حاصل کرنے والے اداروں کو انگریزی نہ بولنے والوں کے لیے مدد فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
نئے حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایجنسیوں کے سربراہوں کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپنی متعلقہ ایجنسیوں کے مشن کو پورا کرنے اور امریکی عوام کو حکومتی خدمات مؤثر طریقے سے فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کا تعین کریں۔
’گلف آف میکسیکو‘ کا نام ’گلف آف امریکہ‘ سے بندلنے سمیت صدر ٹرمپ نے اپنے عہدہ سنبھالنے کے ابتدائی ہفتوں میں ایک کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں جن کے ذریعے وہ ملک پر اپنی دائیں بازو کی پالیسیوں کی چھاپ چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم ان کے کئی احکامات کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا رہا ہے خاص طور پر وہ احکامات جو کانگریس سے منظور شدہ وفاقی فنڈنگ کی منسوخی کا باعث بن سکتے ہیں۔