جب دنیا آٹھ مارچ کو عالمی یومِ خواتین منا رہی ہے، ریاض ایئر ترقی اور جدت کا ایک نمایاں استعارہ بن کر سامنے آیا ہے، جو ہوا بازی میں خواتین کی شمولیت اور صنفی تنوع کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔
یہ ایئرلائن، جو اس سال کے آخر میں اپنی سروس کا آغاز کرے گی، نہ صرف ایک عالمی معیار کی ایئرلائن بنانے کے لیے کوشاں ہے، بلکہ وہ ایک ایسے شعبے میں بھی رکاوٹیں توڑ رہی ہے جس میں روایتی طور پر مرد زیادہ ہوتے ہیں۔
اس عزم کی ایک بڑی مثال ایئرکرافٹ مینٹیننس انجینئرنگ پروگرام ہے، جس میں ایک سال قبل پہلی بار مکمل طور پر خواتین پر مشتمل بیچ کو داخلہ دیا گیا تھا—ان خواتین کی تعداد 27 ہے۔
ہزاروں امیدواروں میں سے منتخب ہونے والی یہ خواتین ریاض ایئر کی تنوع، شمولیت، اور افرادی قوت کی ترقی کے عزم کو ظاہر کرتی ہیں، جو کہ سعودی وژن 2030 کے خواتین کو بااختیار بنانے کے ہدف سے ہم آہنگ ہے۔
عرب نیوز نے تین خواتین—شہد السلمی، ھالہ الزھرانی، اور الخضران الرشیدان—سے خصوصی گفتگو کی۔
شہد السلمی، جو 24 سالہ فزکس کی طالبہ ہیں اور ام القریٰ یونیورسٹی، مکہ میں زیر تعلیم ہیں، نے اس پروگرام کو ایک بے مثال موقع قرار دیا۔
انہوں نے کہا: ’ہر روز کالج جانا اور اپنے کلاس روم کے باہر ایک طیارہ دیکھنا—یہ ایک ناقابل یقین احساس ہے۔ ’میرے خیال میں ریاض ایئر نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کیونکہ ان کے سی ای او، ٹونی ڈگلس، اکثر کہتے ہیں: ہمارے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں ہے جو ہمیں پیچھے کھینچ سکے۔ اور میرے خیال میں انہوں نے خاص طور پر خواتین کو اس لیے چنا کیونکہ وہ لیبر مارکیٹ کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کچھ نیا اور منفرد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم آگئے ہیں اور ہم اس پوری انڈسٹری کو تبدیل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اور ہم سب کے لیے، یہ ایک بہت طاقتور پیغام ہے۔‘
السلمی نے ان قربانیوں پر بھی روشنی ڈالی جو بہت سی زیر تربیت خواتین، بشمول خود انہوں نے دی ہیں: ’ہم میں سے بیشتر ریاض سے باہر سے آئی ہیں۔ ہم نے اس موقع کے لیے اپنے خاندانوں اور عزیزوں کو چھوڑا، کیونکہ نہ صرف ہمیں پر یقین ہے بلکہ ہمارے خاندان بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔‘
ھالہ الزھرانی، جو 19 سالہ طالبہ ہیں اور جدہ سے تعلق رکھتی ہیں، نے بتایا کہ جب انہیں منتخب ہونے کی خبر ملی تو وہ بہت فخر محسوس کر رہی تھیں۔
انہوں نے کہا: ’یہ جان کر کہ میں اس شعبے میں بطور خاتون—اور بطور سعودی—پہلی ہوں، یہ ایک بہت بڑی حوصلہ افزائی کی بات تھی۔
’میرا خیال ہے کہ یہ واقعی ضروری اور اہم ہے کہ ہم تاریخ کا حصہ بنیں۔ یہی وہ کام ہے جو ریاض ایئر کرنا چاہتی ہے—صرف سعودی عرب میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں۔ یہ جاننا کہ ہم اس کا حصہ ہیں، ایک بہت بڑی بات ہے۔
’ہم پہلی ہوں گی، یہ بات بیک وقت ڈراؤنی بھی ہے اور شاندار بھی۔ مگر ہمارے پاس جو تعاون اور مدد حاصل ہے، اس کی وجہ سے خوشی کا پہلو خوف پر غالب ہے۔‘
الخضران الروشیدان، جو شاہ فیصل یونیورسٹی سے 21 سالہ کمپیوٹر سائنس گریجویٹ ہیں اور الاحسا کی رہائشی ہیں، نے کہا کہ یہ پروگرام صرف ایک انفرادی کامیابی نہیں، بلکہ سعودی وژن 2030 کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا: ’نہ صرف ہم پہلے ہیں، بلکہ یہ ایک بڑے وژن کا حصہ بننے جیسا ہے، اور یہ میرے لیے بہت حیرت انگیز ہے۔‘
وہ ہوا بازی کے مختلف شعبے دریافت کرنے کے لیے پرجوش ہیں اور کہتی ہیں: ’میں ہر وہ چیز سیکھنا چاہتی ہوں جو میں سیکھ سکتی ہوں، جیسے کہ مینجمنٹ، ٹیکنیشن کا کردار—سب کچھ۔ مجھے خود کو چیلنج کرنا بہت پسند ہے، اور میرا ماننا ہے کہ اس سے چیزیں میرے لیے آسان ہو جائیں گی اور بہت سے مواقع میسر آئیں گے۔ مجھے بہت فخر ہے کہ میں یہاں ہوں۔‘
الخضران الرشیدان نے مزید کہا: ’طیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال کا شعبہ صرف سعودی عرب میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں مردوں کے غلبے میں ہے۔
’مجھے اس بات کی اور بھی زیادہ قدر محسوس ہوتی ہے کہ ریاض ایئر اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اصل بات خواتین کے لیے دروازے کھولنا ہے۔ یہ خواتین کے اختیارات میں اضافے کی تاریخ کا حصہ بننے جیسا محسوس ہوتا ہے۔‘
اگرچہ الرشیدان کے خاندان کو ابتدا میں اس پروگرام میں اس کی شرکت کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے، لیکن اب وہ مکمل طور پر اس کے فیصلے کے حامی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میرے خاندان کے لیے یہ خوفناک تھا، لیکن جب انہوں نے مجھے یہاں خوش دیکھا، اچھا کرتے ہوئے دیکھا، تو وہ فخر محسوس کرنے لگے۔ میرے بھائیوں میں سے ایک—اسی نے مجھے اس قدم کے لیے حوصلہ دیا اور میری ماں کو خوف نہ کرنے پر آمادہ کیا۔ وہ مجھے ہر دن فون کرتے ہیں، ہم ہر چیز کی تصاویر شیئر کرتے ہیں۔
ریاض ایئر کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی ہوا بازی کی تنظیم (ICAO) کے مطابق، دنیا بھر میں طیاروں کی دیکھ بھال کرنے والے انجینئرز میں خواتین کا تناسب صرف تین فیصد ہے۔
چونکہ ہوا بازی کی صنعت کو ماہِر تکنیکی ماہرین کی قلت کا سامنا ہے، ریاض ایئر محض عہدوں کو پُر کرنے کے بجائے، صنعت کے اصولوں کو ازسرِنو تشکیل دینے اور ایک پائیدار ٹیلنٹ نیٹ ورک قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ سخت تربیتی پروگرام تھیوری کو عملی تربیت کے ساتھ جوڑتا ہے، جس میں الیکٹریکل سسٹمز، طیاروں کے ڈھانچے، اور حفاظتی پروٹوکولز شامل ہیں۔
زیر تربیت انجینئرز کو تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول میں سیکھنے کا موقع دیا جاتا ہے، جو ریاض شہر کی تیز رفتار ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔
ریاض ایئر کے ساتھ اس فیلڈ میں شامل ہونے والی یہ اولین خواتین سعودی عرب میں ہوا بازی کے ایک نئے دور کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریاض منتقل ہونا ان میں سے اکثر کے لیے ایک بڑا قدم تھا، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر مقامی نہیں ہیں۔ تاہم، ان تبدیلیوں کے باوجود، وہ جلد ہی ایک دوسرے سے گھل مل گئیں کیونکہ وہ مشترکہ رہائش میں ایک ساتھ رہتی ہیں۔
تربیت حاصل کرنے والی خواتین نے کہا: ’ہم نے اپنے اندر اور کمپنی کے ساتھ ایک کمیونٹی بنا لی ہے۔ یہ محض ایک اور نوکری کی طرح محسوس نہیں ہوتا۔‘
چونکہ ہوا بازی کا شعبہ ابھی تک مردوں کے غلبے میں ہے، یہ گروپ روایتی تصورات کو چیلنج کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
انہوں نے اجتماعی طور پر کہا: ’یہ پروگرام اس سے پہلے موجود نہیں تھا، مستقبل کی نسلوں کے لیے بہت سے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، اور ہم شکر گزار ہیں کہ ہمیں اس پہلے گروہ کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ یہ صرف خواتین کو افرادی قوت میں شامل کرنے کے بارے میں نہیں، بلکہ معیشت کو مضبوط کرنے کے بارے میں ہے؛ اگر آپ صرف مردوں کو بھرتی کر رہے ہیں، تو آپ اپنی لیبر فورس محدود کر رہے ہیں۔‘
ابھی تربیت کے 18 ماہ باقی ہیں، لیکن یہ طالبات پہلے ہی اپنے کیریئر کے اگلے مرحلے کے بارے میں پُر جوش ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہر دن، جب ہم کلاس کے لیے جاتے ہیں، اور ایک طیارہ دیکھتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی بڑی چیز کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
جب ریاض ایئر 2025 میں اپنی پہلی پرواز کے آغاز کی تیاری کر رہی ہے، یہ نوجوان خواتین ایئرلائن کے مستقبل کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، اور ان کی موجودگی سعودی عرب کی ہوا بازی کی صنعت میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔
ان کا سفر، جو ذاتی قربانیوں اور بے پناہ عزم سے بھرا ہوا ہے، نہ صرف قوم بلکہ عالمی ہوا بازی کی صنعت کے لیے بھی ایک طاقتور پیغام ہے۔
عالمی یومِ خواتین کے 50 ویں سال پر، ریاض ایئر کی ہوا بازی میں خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ خواتین میں سرمایہ کاری کا کتنا گہرا اور مثبت اثر ہو سکتا ہے۔
شہد السلمی نے کہا: ’ہم سب اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہیں اور اسے ترقی کرتے دیکھنا چاہتی ہیں، اور اس کی قیمت کسی کا حق چھیننا نہیں۔
ہم مردوں کی جگہ نہیں لے رہی، ہم ان کے ساتھ کام کر رہی ہیں—یہی حقیقی معنوں میں خواتین کا بااختیار ہونا ہے۔‘
یہ خواتین اس پروگرام کو مستقبل میں مزید ترقی کی بنیاد کے طور پر دیکھتی ہیں۔
ہالہ الزہرانی نے اختتامی الفاظ میں کہا: ’جیسا کہ شہد السلمی نے کہا تھا، حد آسمان ہے‘، میں کہتی ہوں، ’نہیں، ہم تو آسمان میں ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری کوئی حد نہیں!‘