کوئٹہ میں پہلا اِیٹ فیسٹیول: ’خواتین کے لیے کاروبار شروع کرنے کا اچھا موقع‘

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پہلا کوئٹہ اِیٹ فیسٹول  منقعد ہوا، جس میں خواتین سمیت ہزاروں شہریوں نے شرکت کی۔

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پہلا کوئٹہ اِیٹ فیسٹیول  منقعد ہوا، جس میں خواتین سمیت ہزاروں شہریوں نے شرکت کی۔

بلوچستان کی سطح پر ہونے والا یہ سب سے بڑا اور پہلا فوڈ فیسٹول ڈی ایچ اے کوئٹہ کی سلطنت مارکی اور ایونٹ کمپلکس نے منقعد کرایا۔

آرگنائزر جان شیر نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فوڈ فیسٹول میں 50۔60 شہریوں نے شرکت کی۔ 

’یہ ایک فیملی ایونٹ تھا اور بڑی تعداد میں کوئٹہ کی عوام نے تینوں دن فیملیز کے ہمراہ شرکت کی، جو انتظامیہ کے اندازے سے کئی گنا زیادہ تھے۔  

فوڈ فیسٹول میں 180 سے زیادہ سٹالز لگائے گئے تھے، جن میں 100 سے زیادہ فوڈ اور 50 سے زیادہ آرٹیسنز کے لیے مختص کئے گئے۔ 

فیسٹیول میں ان خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جو گھروں میں سلائی کڑہائی کتی ہیں اور پشتون اور بلوچ ثقافتی کپڑے بناتی ہیں۔ ایسا ایک جوڑہ کپڑے بنانے میں کاریگر کو ایک سے چھ مہینے کا وقت لگتا ہے اور اسی لیے ان کی قیمتیں عام کپڑوں سے کئی کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔
کوئٹہ اِیٹ فیسٹول میں خواتین کے ثقافتی قمیض شلوار بیچنے والی ناہدہ کاسی، جو آن لائن کاربار چلاتی ہیں، نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس طرح کے ایونٹ ان جیسی خواتین کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ 

’اس سے ہمارے کام کی نمائش ہوتی ہے اور ہمیں خریداروں کی جانب سے براہ راست فیڈ بیک ملتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں انسٹا، فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی کلیکشن قومی اور بین الاقوامی سطح پر فروخت کرتی ہوں۔ اس طرح کے فیسٹیول میں خریداروں کے ساتھ ہمارے کافی اچھے تعلقات بن جاتے ہیں اور ہمیں گاہکوں کی پسند اور ضرورت کے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں، جس سے ہم اپنے آن لائن کام کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان کپڑوں کی قیمتیں 10 ہزار سے لاکھوں روپے فی جوڑا ہوتی ہیں اور میں اپنے علاوہ دور دراز علاقوں کی ان خواتین سے بھی یہ کام خریدتی ہوں اور اس طرح میرے علاوہ 20۔25 دوسری خواتین کے گھروں کا چولہا بھی جلتا ہے۔‘

فیسٹول میں خصوصی افراد کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی تھی۔ 

کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی کی قوت بینائی سے محروم طالبہ وشناز نے بھی ان کی تیار کی ہوئی جیولری کا سٹال لگایا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’میں 13 سال پہلے آنکھوں سے معذور ہوئی، پہلے پہل میں کافی ڈیپریشن کا شکار ہوئی۔ لیکن میں نے ایک ادارے میں بزنس کلاسسز لیں اور بعد ازاں یہ کاروبار شروع کیا۔

’اب میرے ابو بازار سے موتی وغیرہ لا کر دیتے ہیں اور میں اپنے ہاتھوں سے خواتین کے نیکلس، پرس اور دوسری چیزیں بنا کر فروخت کرتی ہوں۔‘

فیسٹیول میں لگائے گئے فوڈ سٹالز پر بلوچستان کے مشہور کھانے لاندی اور سجی کے علاوہ صوبے کے معروف ہوٹلز کے سٹالز اور ہوم میڈ کچن اور آن لائن فوڈ کا کاروبار کرنے والی خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ 

روقیہ گلانی، جو اپنے سٹال پر سوپ، ڈمپلنگز اور ہوم میڈ کیک فروخت کر رہی تھیں، نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کوئٹہ میں پہلی دفعہ اس طرح کا کوئی فیسٹول دیکھ رہی ہیں۔ 

’ہمارا یہاں کافی اچھا تجربہ رہا کئی سارے لوگ آئے اور ایسی خواتین کو جو کھانا پکانے کا شوق رکھتی ہیں کو لئے میرا مشورہ ہو گا کہ وہ اس شوق کو کاروبار میں بدلیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔‘

آرگنائزر جان شیر کے مطابق فیسٹیول کا بنیادی مقصد کوئٹہ کے عوام کو تفریح کے علاوہ بلوچستان کی خواتین کے لیے کاروبار کے ذرائع اور آئیڈیاز پیش کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ ہر سال ایسا فیسٹیول کا اہتمام کرے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین