کورونا وائرس کی وبا چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد چین نے جس طرح اس کا مقابلہ کیا وہ مثالی اور تاریخی ہے۔ چین کی سرکاری کمپنی ’چائنہ گیزوبا گروپ‘گذشتہ 11 سال سے پاکستان میں میگا پاور پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔ ان میں نیلم جہلم، داسو ہائڈرو پاور پراجیکٹ، سُکی کناری، کروٹ، مہمند ڈیم، M-4 موٹروے اور E-35 موٹروے شامل ہیں۔
اس کمپنی میں بیس ہزار پاکستانی اور سات ہزار چینی باشندے ملازم ہیں۔ کمپنی سی پیک کے متعدد منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور اس کا ہیڈکواٹرز ووہان میں واقع ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے وقت واضح تعداد میں کمپنی کے چینی امپلائیز سپرنگ ہالیڈے اور تقریبات کے لیے چین میں موجود تھے۔ اس صورت حال میں کمپنی کی اولین ترجیح ان کی اور واپسی آنے والے سٹاف کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔
چائنہ گیزوبا نے کیا اقدامات اٹھائے جاننے کے لیے میں ان کے اسلام آباد میں واقع ہیڈ آفس گئی جہاں کمپنی کی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن مس ہانگ نا نے اقدامات پر تفصیل سے بات کی۔ مس ہانگ نا کا کہنا ہے کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں جب صورت حال غیر واضح اور غیر یقینی تھی، کمپنی نے ہنگامی اقدامات اٹھائے تاکہ چاروں صوبوں میں موجود ان کی کنسٹرکشن سائٹس اور دفاتر میں موجود پاکستانی اور چینی سٹاف کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ اس ضمن میں تمام امپلائز کو حفاظتی کِٹس جس میں ماسک، سینیٹائزرز وغیرہ شامل ہیں مہیا کی گئیں۔
اس کے علاوہ تمام سٹاف ممبرز کی سکیرننگ روزانہ کی بنیاد پر لازم قرار دی گئی اور کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے تین ’آیسولیشن ہاؤسسز‘ کا اسلام آباد میں قیام۔ یہ سہولت تاہم کوئی کیس کے نہ ہونے پر استعمال میں نہیں آئی۔
کمپنی نے اپنے تمام عملے کو جو سپرنگ ہالیڈے کے بعد چین سے واپس آیا پندرہ دن قرنطینہ میں رکھا۔ دفتر میں سخت حفاظتی اقدامات کے تحت لنچ بریک کے دوران سٹاف ممبرز کے ہال میں جمع ہونے پہ پابندی، اجلاس کے لیے وزیٹرز کے آنے پر پابندی، دفتر میں باقاعدگی سے اینٹی بیکٹریل سپرے کا استعمال اور ماسک پہننا لازم قرار دیا گیا۔ NIH کی ٹیم نے چینی کمپنی کے اسلام آباد دفتر کا دورہ کیا تو حفاظتی انتظامات کو سراہا۔ چینی کمپنی چائنہ گیزوبا نے انتہائی کٹھن وقت میں بھی پاکستان کے مختلف صوبوں میں جاری میگا پاور پراجیکٹس پر آپریشنز جاری رکھے اور تمام پاکستانی اور چینی عملہ بھی محفوظ رہا جو کہ یقیناً چینی کمپنی کی بڑی کامیابی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین کی بات کریں تو 10 مارچ کو صدر شی جن پنگ نے چین کے علاقے ووہان کا دورہ کیا جو کورونا وائرس کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اس دورے سے چین کے سب سے طاقتور شخص نے یہ نشاندہی کی ہے کہ بدترین قومی ایمرجنسی ختم ہو چکی ہے۔
اس کے مقابلے باقی دنیا میں کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دو ہفتوں میں چین سے باہر کیسز 13 گنا بڑھ گئے ہیں۔
ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ انہیں ’اقدامات نہ ہونے پر بہت تشویش ہے‘ جبکہ ڈبلیو ایچ او نے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری اور سخت اقدامات لیں۔
اب جبکہ چین اس وبا پر واضح طور پر قابو پا چکا ہے، ہمیشہ کی طرح چین نے پاک چین دوستی نبھاتے ہوئے ووہان سے طبی ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان بھیجی ہے جو اپنے تجربے اور مہارت سے پاکستان میں اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مقامی ماہرین کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
مقامی سطح پر کو رونا وائرس پر قابو پانے کے بعد چین عالمی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اور تمام سازشی مفروضوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے دنیا میں اس وائرس سے بچاؤ اور تدارک کے لیے فعال کردار ادا کیا ہے۔ اٹلی جو اس وقت مکمل طور پر کورونا وائرس کی زد میں ہے، چینی طبی ماہرین کی ٹیم وہاں بھی اپنی خدمات دینے کے لیے پہنچی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح چین نے اس وبا پہ قابو پایا کیا باقی دنیا اس پہ قابو پا سکتی ہے؟ یقیناً اس حوالے سے چین کے اقدامات سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔