’ہو کا عالم‘ سُن تو رکھا تھا لیکن طبیعت ٹھکانے لگا دینے والے معنی اور مطلب لندن میں چار عشرے گزارنے کے بعد اب سمجھ میں آ رہے ہیں۔
ایسا سناٹا و سکوت کہ جو سات آسمانوں سے اوپر ہوتا ہوگا کہ جہاں اللہ میاں ہی بس رہتے ہیں۔ بالکل خاموشی ہوتی ہے کوئی آواز نا ہوتی ہے اور نا آتی ہے۔ لندن کے اس سناٹے اور سکوت نے مجھے ’ہو کا عالم‘ ایسا سمجھایا ہے کہ اب شاید کبھی نا بھولوں۔
یہاں اب صبح و شام سناٹا و خاموشی ہے۔ فلیٹ سے کوئی دو سو گز پرے ’بولو لین‘ نامی مین روڈ ہے جہاں سے ہر چند منٹ کے وقفے سے ایک کے بعد ایک تین بسیں گزرتی تھیں، اب نہیں گزرتیں۔ ہاں البتہ بطخیں اور بلیاں اپنے بچوں سمیت خراماں خراماں سڑک پار کرتے زیادہ نظر آتی ہیں۔
بولو لین پر دائیں بائیں جہاں تک نظر گئی تمام دکانیں بند نظر آئیں۔ میری گلی کے نکڑ پر واقع مقامی سینزبری (کھانے پینے کی ضروری اشیا، پھل، سبزیوں، انڈے، دودھ، ڈبل روٹی، دال چاول وغیرہ کا سٹور) کھلا ہے لیکن باہر دو دو میٹر نشان لگا ہے کہ وقفہ اور فاصلہ رکھ کر قطار آگے بڑھے گی۔ ایک باہر آئے گا تو دوسرا اندر جائے گا۔ اگر چکمہ دو تو میگا فون چیخ پڑتا ہے کہ اپنی اوقات میں رہ، ہیرو نا بن۔
خود سینزبری سٹور کے اندر بھی چہرے پر ماسک لگائے، ہاتھوں پر دستانے پہنے عملے نے ڈسپلن سختی سے برقرار رکھا ہے۔ وہ ایک ہی چیز دو عدد سے زیادہ اٹھانے نہیں دیتے۔ آواز سے کم اور اشاروں سے زیادہ بات کرتے ہیں۔ اگر اڑی کرو اور کیشیئر تک پہنچ بھی جاؤ تو وہاں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔
ایسے سٹوروں میں صبح نو سے گیارہ اور شام میں پانچ سے سات بجے تک کا وقت بچے بردار ماؤں اور ویل چیر والوں یا ضعیفوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے ہے۔ وہ اپنا سپیشل کارڈ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ مقامی مسجد، کلیسا، مندر اور سینیگاگ تا اطلاع ثانی بند ہیں اور اس پر کوئی احتجاج ہوا ہے نہ ہوگا، کیونکہ زیادہ فوں فاں کرنے پر ذلت آپ کا مقدر بنتی ہے۔
بولو لین سے ایک کلو میٹر آگے موریسن شاپنگ سینٹر تک راستے میں آنے والے دس بارہ پب (شراب خانے) بھی تا اطلاع ثانی بند ہیں یعنی وہ پابندیاں جو دو عالمی جنگوں میں بھی نا آئی تھیں وہ اس ’ہو کےعالم‘ میں چلی آئی ہیں۔ انگلینڈ اور ویلز سمیت سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں بھی تقریباً ایسی پابندیوں کے بعد لوگ ’چیں‘ بول اٹھے ہیں اور کرونا کی وبا کے ساتھ ہر جگہ بند ہونے یا بند کر دیے جانے کی یہ ادا اعلان کے مطابق فیالحال مئی کے تیسرے ہفتے تک جاری رہے گی۔ اس کے آگے بڑھنے کا پورا امکان ہے۔
مرکزی لندن میں ایک خاتون سائیکل پر کرسی اٹھائے جا رہی ہیں (اے ایف پی)دوسری طرف ڈاکٹروں اور نرسوں نے اپنی سرجریوں (گلی محلّوں میں قائم، مقامی شفا خانوں) میں آنے والے مریضوں کو دیکھنے، ان کی سننے، تشخیص کرنے اور تحریری نُسخے یا مزید اپائنٹمنٹ دینے کے لیے، منہ اور نصف چہرہ بند کرنے والے ماسک تو پہلے ہی چڑھا لیے تھے مگر اب تمام پیشگی اپائنٹمنٹس فون پر منتقل کر دی ہیں۔
روبرو تشخیصی ملاقات بند کر دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی جتا دیا گیا ہے کہ 21 مئی سے عام سرجریز کے ڈاکٹر، کنسلٹنٹ، نرسیں اور دیگر سپورٹنگ سٹاف ’فور فرنٹ‘ اگلے محادوں پر اور ’ایمبیولینس‘ میں ہوں گے (یعنی ڈاکٹر گلریز شفیع جامعی اور نئی نئی ڈاکٹر صاحبزادی نیّر شفیع جامعی بھی صرف وہیں پائے جائیں گے)۔
زیادہ تر طبی امداد اور مشورے ویب سائٹ پر 24 گھنٹوں کے اندر تحریری طور پر ملیں گے، ہاں البتہ ہسپتال ایمرجنسی علاج کے لیے کھلے رہیں گے لیکن وہاں بھی طویل انتظار کے لیے تیار رہا جائے۔ شفاخانوں میں ماسک پہن کر آنے، اسے لگائے رکھنے، سینیٹائزر کا استعمال جاری رکھنے، پالتو جانور ساتھ نہ لانے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی پُر زور تاکید کی گئی ہے۔ میں نے ایسا حکم و انتظام اس سے پہلے کبھی نا دیکھا اور نا ہی سنا تھا۔
برطانیہ کی ملکہ الزبتھ نے کورونا سے ہرگز نا گھبرانے والا رعایا سے خطاب تو کیا ہے لیکن اپنے مشیران تاج برطانیہ سے مشاورت کے بعد حفظ ما تقدم کے طور پر وہ لندن کا بکنگھم پیلس چھوڑ کر، ونڈزر کاسل منتقل ہوچکی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے 1348 میں طاعون سے بھی پہلے، بلیک ڈیتھ کے دوران، بادشاہ چارلس دوم اپنے حواریوں سمیت پہل ہیمپٹن کورٹ اور پھر آکسفورڈ منتقل ہوگئے تھے۔ یہی کچھ متمول گھرانوں نے بھی کیا ہے۔ کیو نکہ ’شہر‘ کی نسبت دیہات و مضافات قدرے محفوظ ہیں اور اس آوارہ کورونا کے کسی اور طریقے سے آچمٹنے کا خطرہ بھی قدرے کم ہے۔
شہر میں تیزی سے پھیلنے والی وبا کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں گھریلو کوڑے کرکٹ اور کچرے کو ہفتے میں ایک ہی بار اُٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا انتظام ہے۔ اس کی وجہ سے لندن کے بالخصوص وہ علاقے جہاں کم آمدنی والے سیاہ فام یا ایشیائی آباد ہیں، انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان لوگوں کے ایک ہی گھر میں گنجائش سے زیادہ افراد کے ’مل کر رہنے‘ نے بھی قیامت ڈھائی ہے۔
رئیس و امراء البتہ دیگر شہروں کا رخ کرنے اور کنٹری سائڈ چلے جانے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اب حکومت کی طرف سے اس بات کا سختی سے خیال رکھا جا رہا ہے کہ کورونا کی وبا میں مبتلا کوئی شخص ایک شہر سے دوسرے بھاگنے نا پائے۔
ایسے گھروں اور علاقوں پر خاموشی کے ساتھ سرکاری پہرہ ہے جہاں کورونا زدہ کسی شخص کی موجودگی کی اطلاع ہے اور وہ اگر ہسپتال میں نہیں تو اپنے ہی گھر میں لاک ڈاؤن ہیں۔ مگر اس بات کا سرکاری طور پر خیال رکھا جا رہا ہے کہ ایسے افرد یا اُن کے خاندان کے لائے خوراک اور راشن کی فراہمی متاثر نہ ہو۔
وبا کا پھیلاؤ روکنے اور اس خیال کے تحت کہ یہ موذی کورونا متاثرہ شخص کے ذریعے دیگر لوگوں میں بھی منتقل ہوجاتا ہے لوگوں نے ازخود ایک دوسرے سے ملنا جلنا کم کر دیا ہے جو خودساختہ علیحدگی اور فاصلے کی صورت میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔
سکاٹ لینڈ نے انگلینڈ سے ملنے والی سرحد پچھلی وباؤں کی طرح بند نہیں کی، تجارتی روابط منقطع نہیں کئے، انگلینڈ میں بیروزگاری میں اضافہ نہیں ہوا، لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو خوراک کے لیے بھیک نہیں مانگنا پڑی اورچوری چکاری میں بھی اضافہ نہیں ہوا۔
لیکن حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت نے سرکاری خزانے کا منھ کھول دیا ہے۔ ایک سب سے بڑا انقلابی فلاحی قدم حکومت نے یہ اٹھایا کہ ہر محنت کش کی 80 فیصد تک تنخواہ خود دینے کا اعلان کیا۔ کارخانوں اور کمپنی مالکان سے کہا کہ وہ اپنے محنت کشوں میں نا کٹوتی کریں نا ہی نکالیں۔ بینکوں سے کہا کہ وہ کم از کم تین ماہ تک بلا سود مقررہ رقم تک کے قرضے دیں، مالک مکان کو حکم دیا کہ وہ تین ماہ تک کرایہ نا مانگے نا ہی گھر خالی کرائے۔ حکومت اسے زر تلافی ادا کرے گی اسی طرح سے روڈ ٹیکس، انکم ٹیکس سے لے کر کونسل ٹیکس تک لینے والے اداروں کو منع کر دیا گیا کہ نا ابھی ٹیکس لیں اور نا ہی یہ کر دیں گے اور وہ کردیں گے کی تڑیاں دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عوام میں شعور بیدار کرنے اور وبا کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر والے سرکاری حکم ناموں سمیت فلاحی اداروں اور سوشل میڈیا نے کمر کسی ہے۔ انہوں نے ایسی مہم چلائی ہے کہ مزید ’ہو کا عالم‘ آتا دکھائی دیتا ہے۔
متاثرہ علاقوں میں پالتو جانور خاص کر کتے بلی اور کبوتروں کو ایک گھر سے دوسرے گھر نا لیجانے سمیت وہ وہ پابندیاں لگی ہیں کہ ال اماں!
برطانیہ جیسا ترقی یافتہ ملک جو ایسی وباؤں سے ماضی میں بھی نمٹ چکا ہے اس کورونا وائرس سے دہل گیا ہے۔ کلبس، نائٹ و پول ڈانس سمیت ’مبینہ عیاشی‘ کے تمام اڈے بند کر دیے گئے ہیں مگر پھر بھی اس دجالی صفت کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد روزانہ اوسطاً چھ سے سات سو کے درمیان ہے۔ یہ پہلے کے مقابلے میں کم ہوئی ہے کیونکہ ہفتہ بھر پہلے یہی تعداد نو سو سے ہزار کے درمیان تھی۔
سوچ یہ رہا ہوں کہ مادر وطن پاکستان اس بےرحم کورونا سے اب تک کیسے نبرد آزما ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں کیسے نمٹے گا؟ دنیا کی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ پاکستان میں نا تو سب لوگوں کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں نا ہی اتنے وسائل ہیں کہ فی الفور ایسا ہو سکے۔
ایسے میں کیا مملکت خداداد پیاز سونگھنے، اسے دبا کر لگانے اور بدن کے مختلف حصوں میں رکھنے اور سات یا 10 دانے کلونجی روزانہ کھا لینے پر ہی گزارہ کرے گی یا کسی نے کوئی اور بہتر حل بھی سوچا ہے۔