اسرائیلی یہودی بستی ایریل کی رہائشی پیری بین سینور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں کے اسرائیل میں انضمام کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ یہ ان کے پراپرٹی کے کاروبار کے لیے ایک اچھا قدم ہو گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایریل کا علاقہ، جس کی آبادی 20 ہزار سے زائد ہے اور اس میں ایک یونیورسٹی اور شاپنگ سینٹرز بھی قائم کیے جائیں گے، ان چند یہودی بستیوں میں سے ایک ہے، جو فلسطینی علاقوں کے اسرائیلی انضمام کے پہلے مرحلے میں اسرائیل میں شامل کیے جائیں گے۔
ایسا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت سے کیا جا رہا ہے۔ رواں برس جنوری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سامنے آنے والے اس متنازع امن منصوبے میں مغربی کنارے کے علاقوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کے لیے امریکی حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان میں یہودی بستیاں بھی شامل ہیں جو عالمی قوانین کے تحت غیر قانونی قرار دی جا چکی ہیں۔
اپنے دفتر میں بیٹھی پیری بن سینور پُر امید ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو صدر ٹرمپ کے اس منصوبے پر عمل جاری رکھیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'یہ اس علاقے میں مکانات اور زمین کی قیمت بڑھا دے گا کیونکہ اس کی طلب زیادہ ہو گی۔'
مغربی کنارے کے دوسرے علاقوں میں بھی رئیل سٹیٹ ایجنٹس نے انضمام کے منصوبے کے اعلان کے بعد سے زمینوں کی قمیتوں میں بڑا اضافہ دیکھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایلی کے علاقے میں زمینوں کا کاروبار کرنے والے ڈینیئل واچ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ گذشتہ دو مہینے میں کئی سال سے زائد کا منافع ہوا ہے۔
ایک اور رئیل سٹیٹ ایجنٹ کہتے ہیں: 'الفئی میناشے میں ہم نے گذشتہ دس دن میں پراپرٹی کی چھ ڈیلز کی ہیں۔ یہ گھر مارکیٹ میں کئی ماہ سے فروخت کے لیےموجود تھے اور ان کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا امکان موجود ہے۔'
اگر اسرائیل ان علاقوں کو ضم کر لیتا ہے تو یہاں اسرائیل کے فوجی قوانین کی بجائے شہری قوانین کا نفاذ ہو جائے گا۔ مذکورہ رئیل سٹیٹ ایجنٹ مغربی کنارے کے لیے اسرائیلی نام استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'سماریا اور جودیا آنے کی ایک اور وجہ ہے کہ اب یہاں رہنے والوں کو اسرائیل کا شہری سمجھا جائے گا۔'
اس منصوبے کی مزید تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آ سکیں لیکن یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ضم شدہ علاقے فلسطینی ریاست کا حصہ نہیں ہوں گے جو کہ صدر ٹرمپ کے منصوبے میں موجود ہے۔
بین سینور کہتی ہیں: 'ابھی لوگ یہ زمینیں خریدنے کے حوالے سے خوفزدہ ہیں۔ وہ سوچتے ہیں اگر ہم یہ زمین خرید لیں تو شاید بعد میں واپس کرنی پڑیں۔ ان کے پیسے کون دے گا۔ ہمارے خریدے گئے گھروں کا کیا ہو گا؟'
1990 کی دہائی میں ہونے والے اوسلو معاہدے، جس کے تحت فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنایا جانا تھا، کے بعد سے مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادی تین گنا اضافے سے چار لاکھ 50 ہزار ہو چکی ہے۔
مذہبی اور نظریاتی وجوہات کے علاوہ کئی اسرائیلی ان علاقوں میں معاشی وجوہات کی وجہ سے بھی منتقل ہو رہے ہیں کیونکہ ان علاقوں کی قیمتیں اسرائیل کے باقی علاقوں سے کم ہیں۔
ڈینیئل واچ کہتے ہیں کہ اسرائیل اور مغربی کنارے کے وسط میں موجود علاقے کفر صبا میں 200 مربع میٹر کا گھر 45 لاکھ شہکلز یعنی 13 لاکھ ڈالر کا ہے۔ الفئی میناشے میں اتنی ہی جائیداد کی قیمت اس سے نصف ہوگی۔ انضمام کے فوری بعد ان قیمتوں میں دس سے 15 فیصد اضافہ ہو جائے گا اور اگلے پانچ چھ سال میں یہ قیمتیں مزید 30 فیصد بڑھ جائیں گی۔
امریکی منصوبے کے تحت نتن یاہو کی حکومت نے یہ عمل یکم جولائی سے شروع کرنا تھا لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔