رواں برس سامنے آنے والے پیٹرولیم مصنوعات کے بحران کے حوالے سے تحیقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرادی ہے۔ کمیشن نے اس بحران کے حوالے سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو 'سفید ہاتھی' قرار دے کر اسے ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔
جس پر منگل کو کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے انکوائری رپورٹ کی سفارشات کا جائزہ لینے کے لیے شفقت محمود، شیریں مزاری اور اسد عمر پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کر دی۔
حکومت پاکستان کی جانب سے کابینہ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کے مطابق پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کے بحران کی تحقیقات کے لیے 28 جولائی 2020 کو ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ابوبکر خدابخش کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا۔
کمیشن میں سات ارکان شامل تھے جن میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ابوبکر خدابخش ، اٹارنی جنرل آف پاکستان کے نمائندے امیر رحمان، انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے کیپٹن آر رومیل، ایف آئی اے کے نمائندے ساجد اکرم، اینٹی کرپشن کے ڈائریکٹر جنرل گوہر نفیس، سابق ڈی جی آئل پیٹرولیم راشد فاروق اور پیٹرولیم انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو عاصم مرتضیٰ شامل تھے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس کہانی کو 'کسی صدمے سے کم' قرار نہیں دیا جب دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں کم تھیں اور پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانےکا موقع ملا تھا، لیکن بجائے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے اسے بحران میں تبدیل کیا گیا۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ہمسایہ ملک بھارت نے 130 دن تک تیل ذخیرہ کرنےکی صلاحیت حاصل کرلی ہے، لیکن ہم ابھی تک صرف 30 دن ذخیرہ کرسکتے ہیں۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ کروڈ اور ریفائنڈ آئل دونوں کے حوالے سے سٹریٹجک سٹوریج کی پالیسی بنائی جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تیل کی سپلائی کے لیے ٹرانسپورٹیشن کو اوگرا اور وزارت برائے معاشی ترقی و منصوبہ بندی دونوں کی جانب سے نظر انداز کیا گیا۔
'شیل سب سے بہتر عالمی معیارات پر عمل پیرا'
تحقیق کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ شیل پاکستان نے بہت سی چیزوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے، جیسے کہ جن گاڑیوں میں شیل کا سامان سپلائی کیا جاتا ہے، ان میں دو کیمرے لگے ہیں اور آٹومیٹڈ پوزیشننگ سسٹم کے ذریعے اس کو مطلوبہ مقام تک پہنچنے تک مانیٹر کیا جاتا ہے۔
کمیشن نے رپورٹ میں تجویز پیش کی کہ شیل سب سے بہتر مارکیٹنگ کمپنی ہوسکتی ہے، جس نے پیٹرول کی قلت کے دوران بہتر کام کیا۔
رپورٹ میں حالیہ بحران کے باعث شیل کو پہنچنے والے نقصان اور کام بند کرنے کی افواہوں سے متعلق کہا گیا کہ 'شیل کا پاکستان میں پیٹرولیم مارکیٹ میں حصہ آدھے سے بھی کم ہے۔ اس کے بند ہونے سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا، لیکن یہ پاکستان کے حق میں بہتر نہیں ہوگا، کیوں کہ شیل سب سے بہتر عالمی معیارات پر عمل پیرا ہے۔'
رپورٹ کے مطابق: 'شیل کمپنی نے تحقیقات کے دوران کمیشن کو بتایا کہ اسے مختلف مسائل کا سامنا ہےکیوں کہ اسے مقامی کمپنیوں کے غیر قانونی کام کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔'
اس بنا پر کمیشن نے تجویز دی کہ شیل کی شکایات کا ازالہ کرکے عالمی کمپنیوں کو یہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے راغب کیا جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اوگرا تیل کی قیمتوں کے تعین کے لیے قدیم طریقہ کار پر عمل پیرا ہے، جو عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتا جبکہ قیمتوں کے تعین کے لیے 15 دن کا فارمولہ تبدیل کرکے اسے 30 دن کیا جانا چاہیے۔
کمیشن نے بتایا کہ رواں برس مارچ -اپریل میں پیٹرولیم مصنوعات پر پابندی کا فیصلہ غلط تھا۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ڈی جی آئل کے خلاف محکمانہ اور پینل ایکشن لینے پر سختی سے زور دیا ہے، جنہوں نے 'امپورٹ اور لوکل کوٹہ کے غیر قانونی احکامات جاری کیے۔'
اس کے علاوہ کمیشن نے عمران علی ابڑو اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایکشن لینے کا کہا، جن کے پیٹرولیم ڈویژن میں غیر قانونی افیئرز ہیں۔
عمران علی ابڑو پیٹرولیم ڈویژن میں 'کنگ' کہلائے جاتےہیں، جو 25 مارچ 2020 کو پیٹرولیم مصنوعات پر پابندی کے احکامات پر دستخط کرنے والوں میں بھی شامل ہیں۔
کمیشن نے رپورٹ میں مزید کہا کہ اس بحران کے دوران سیکرٹری کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے اس دوران کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا ہے۔
کمیشن نے محکمہ توانائی اور پیٹرولیم ڈویژن کے سیکرٹری کے خلاف بھی سخت کارروائی کی تجویز دی ہے۔
مانیٹرنگ سیل کی اشد ضرورت
رپورٹ میں کہا گیا کہ بحران کے دوران پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی مانیٹرنگ نہیں رہی، جس کے باعث آئل مارکیٹنگ کمپنیز نے ناجائز منافع کمایا۔ 'اس کے علاوہ ہمیں تیل کے جہاز 'پلوسی' کی کہانی کے کرداروں کو بھی نہیں بخشنا چاہیے، جنہوں نے جہاز کو اجازت کے بغیر خالی کروایا۔'
کمیشن نے رپورٹ میں تجویز دی ہے کہ محکمے میں مانیٹرنگ سیل کا قیام ناگزیر ہے، جو تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے امپورٹ، لوکل اپ لفٹنگ، روزانہ، ماہانہ فروخت، ریفائنری امپورٹ اور پیداواری پروگرام وغیرہ کا ڈیٹا جمع کرے، جس طرح آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی کرتی ہے۔
کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا صرف قانونی ہو اور تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیاں جواب دہ ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ کسی بھی وقت تیل کی سپلائی میں رکاوٹ یا قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کا اختیار پاکستان آئل رولز 2016 کی دفعہ 54 کے تحت ڈپٹی کمشنرز کے پاس ہوتا ہے، جن کو محکمے اور اوگرا نے روک دیا۔
کمیشن کے مطابق: 'ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بحران کے دوران ڈپٹی کمشنرز ایکشن لیتےکیوں کہ وہ گراؤنڈ پر موجود تھے اور ان کے پاس افرادی قوت بھی موجودتھی۔'
ساتھ ہی کمیشن نے تجویز پیش کی کہ 'ڈپٹی کمشنرز کئی عرصے سے اپنے اس بنیادی حق سے دستبردار نظر آتے ہیں تاکہ وہ عوامی مفاد میں ان چیزوں کا معائنہ اور درست کرسکیں۔ یہ وہ مقام ہے کہ رولز کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔'
رپورٹ میں کہا گیا کہ وزارت توانائی، پیٹرولیم ڈویژن کی کارکردگی ایک دہائی سے بہتر نہیں رہی اور خصوصاً اس بحران کے دوران محکمہ برائے معاشی ترقی و منصوبہ بندی نے قانون اور رولز پر عمل درآمد نہیں کروایا۔
رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ محکمہ برائے معاشی ترقی و منصوبہ بندی کو مزید مضبوط بنایا جائے تاکہ وہ چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لے سکے۔
کمیشن نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ اس تجویز پر عمل کرنا چاہیے اور محکمہ برائے معاشی ترقی و منصوبہ بندی کو محکمہ قانون کے ساتھ مل کر چھ ماہ کے اندر نئے رولز بنانے چاہییں جنہیں کابینہ سے منظور کرکے نافذ کیا جائے۔
کمیشن نے کہا کہ اگر یہ تجاویز منظور کی جاتی ہیں تو محکمہ برائے معاشی ترقی و منصوبہ بندی کو چھ سے بارہ مہینے کا وقت دیا جائے جو پیٹرولیم ڈویژن کے تمام رولز کو نئے سرے سے تشکیل دے جس میں اس کی مضبوطی اور معائنہ کاری کے نظام کا نفاذ وغیرہ شامل ہیں تاکہ ایک موئثر آپریشنل یونٹ تشکیل دیا جاسکے۔
'اوگرا سفید ہاتھی'
کمیشن نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی ( اوگرا) کے حوالے سے لکھا کہ اس اتھارٹی کو 2002 میں بنایا گیا اور 2006 میں اس کو مزید اختیارات دیے گیے تاکہ وہ تیل کی صنعت کو ریگولیٹ کرسکے، لیکن اوگرا کو یہ رولز بنانے میں چودہ سال لگے اور وہ ان پر عمل درآمد کرانے کے پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق: 'یہ (اوگرا) سفید ہاتھی ہے۔ تیل کے بحران اور اس سے پہلے بھی اس کا کردار خاموش تماشائی کا رہا ہے۔'
کمیشن کے مطابق اوگرا نے 2002 سے ابھی تک 14 سال میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو جانچ پڑتال کے بغیر 26 لائسنس جاری کیے جبکہ 32 ابھی بھی پائپ لائن میں ہیں۔
اس کے علاوہ پروویژنل مارکیٹنگ کےغیر قانونی لائسنس بھی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو جاری کیے گئے جبکہ کسی بھی غیر قانونی جوائنٹ وینچر کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا: 'تیل کی صنعت اوگرا کے بغیر اچھی صنعت ثابت ہوسکتی ہے۔'