امریکہ میں ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ وہ دارالحکومت پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے پرتشدد حملے کے بعد ان کی انتظامیہ کے آخری دنوں میں صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے جبکہ کچھ ری پبلکنز بھی اس اقدام کی حمایت کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کو 20 جنوری کو ڈیموکریٹ جو بائیڈن کی حلف برداری سے قبل دوسرے اور تاریخی مواخذے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ کو وبا کے بڑھتے کیسز، سخت معاشی اور معاشرتی تقسیم کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کا کہنا ہے کہ پیر کو امریکی کابینہ سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ آئین کی 25 ویں ترمیم کے تحت صدر ٹرمپ کو عہدہ صدارت کے لیے نااہل قرار دیں۔
پیلوسی کا مزید کہنا تھا کہ اگر نائب صدر مائیک پینس ترمیم کی اطلاق کی درخواست پر راضی نہیں ہوتے تو ’ہم ایوان میں مواخذے سے متعلق قانون سازی کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے۔‘
’جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں صدر ٹرمپ کے ذریعے ہماری جمہوریت پر جاری حملوں کی شدت بڑھتی جارہی ہے اور اسی لیے فوری طور پر کارروائی کی ضرورت ہے۔‘
یاد رہے کہ یوکرین کے صدر سے اپنے مد مقابل جو بائیڈن کے خلاف ’سیاسی گند‘ تلاش کرنے کا دباؤ ڈالنے پر صدر ٹرمپ دسمبر 2019 میں پہلے بھی مواخذے کا سامنا کر چکے ہیں۔
ڈیموکریٹس کے ایوان نمائندگان میں ان مواخذہ ہوگیا تھا مگر ری پبلکن اکثریتی سینیٹ نے صدر کو بچا لیا تھا۔
اگرچہ وقت بہت کم ہے تاہم ڈیموکریٹس کے پاس ٹرمپ کا دوبارہ مواخذہ کرنے کے لیے درکار ووٹ ممکنہ طور پر حاصل ہیں اور وہ اس اقدام کے لیے ریپبلکنز کی جانب سے ملنے والی حمایت میں اضافے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
لیکن اس بات کا امکان نظر نہیں آتا کہ وہ 100 رکنی سینیٹ میں صدر ٹرمپ کو مجرم قرار دینے اور انہیں عہدے سے ہٹانے کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بدھ کو کیپیٹل بلڈنگ میں مظاہرین کے داخلے کے بعد حکام کی جانب سے صدر ٹرمپ کے مزید حامیوں کو گرفتار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایسا صدر ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاؤس کے باہر ایک ریلی منعقد کرنے اور اس میں الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے اپنے غلط الزامات دہرانے کے بعد ہوا تھا۔
ری پبلکن سینیٹر پیٹ ٹومی نے اتوار کے روز ’سی این این‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ کا فوری استعفیٰ ’آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بہت اچھا فیصلہ ہوگا۔‘
پیٹ ٹومی کے مطابق 3 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ہارنے کے بعد سے صدر ٹرمپ ’پاگل پن کی سطح پر آگئے تھے اور ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے تھے جو بالکل ناقابل تصور اور ناقابل معافی تھیں۔‘
امریکی ریاست الاسکا سے تعلق رکھنے والی لیزا مرکووسکی پہلی ری پبلکن سینیٹر تھیں جنہوں نے یہ کہتے ہوئے ٹرمپ سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا کہ ’میں انہیں باہر کرنا چاہتی ہوں۔‘
جس کے بعد ہاؤس ری پبلکنز بشمول ایڈم کنزنجز نے بھی اتوار کو اس مطالبے کی حمایت کی ہے۔
دوسرے مواخذے کے آرٹیکل جس کے تحت صدر کے خلاف کارروائی کی جائے گی میں ان پر میں بدھ کو ہونے والے تشدد کو بھڑکانے کے الزامات عائد کیے جائیں گے۔ اس واقعے میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دوسری جانب اتوار کو واشنگٹن کے کانسٹی ٹیوشن ایونیو پر سینکڑوں آف ڈیوٹی پولیس اہلکاروں نے کیپیٹل حملے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار براین سِکنِک کی میت کو سلامی دی۔
بدھ کے بعد سے کیپیٹل کے حفاظتی اقدامات میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ تاریخی عمارت کے گرد دو میٹر بلند سیاہ دھات سے بنی باڑ نصب کر دی گئی ہے۔ شدت پسندوں کی جانب سے آنے والے دنوں میں واشنگٹن اور ریاستی دارالحکومتوں میں مزید کارروائیوں کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔
صدر کے خلاف دوسرے مواخذے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ڈیموکریٹس ان کے دفتر چھوڑنے کے بعد انہیں مزید کسی سرکاری عہدے کے لیے الیکشن لڑنے سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔
بدھ کو کانگریس میں انتخابی نتائج کی تصدیق کے دوران کسی طرح کی مداخلت نہ کرنے پر صدر ٹرمپ اپنے نائب صدر مائیک پینس پر بھی برہم ہیں۔
حالیہ دنوں میں صدر ٹرمپ زیادہ تر خاموش ہی رہتے ہیں اور ان کی جانب سے صرف چند بیانات جاری کیے گئے ہیں جبکہ کوئی پریس کانفرنس بھی نہیں کی گئی جبکہ انہیں اپنے پسندیدہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر سے بھی بین کر دیا گیا ہے۔
وہ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں ٹیکساس کا دورہ کر کے پناہ گزینیوں کو روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے اپنے دعوے کو پورا ہوتے دکھانا چاہتے ہیں۔
سینیٹ کے قوانین کا مطلب ہے کہ ایوان بالا ممکنہ طور پر 19 جنوری سے پہلے مواخذے کے مقدمے کی سماعت نہیں کر سکے گا، اور ٹومی کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کسی کو عہدے سے ہٹانے کے بعد آئینی طور پر ان کا مواخذہ کرنا ممکن ہے۔
تاہم کچھ ڈیموکریٹس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے جو بائیڈن کو اپنا ایجنڈا پیش کرنے، کرونا(کورونا) وائرس سے مقابلے اور معیشت کی بحالی کے لیے لیے جانے والے اقدامات سینیٹ کی اس کارروائی سے پس منظر میں جا سکتے ہیں۔