امریکی ایوان نمائندگان نے بدھ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دوسرے مواخذے کی منظوری دے دی۔
چیمبر کے تاریخی ووٹ کے نتائج کا اعلان سپیکر نینسی پیلوسی نے کیا جس کے بعد ٹرمپ امریکی تاریخ کے واحد صدر بن گئے ہیں جن کو دوسری بار مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا۔
صدر ٹرمپ پر کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کے لیے اپنے حامیوں کو ’بغاوت پر اکسانے‘ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایوان نمائندگان میں صدر کے مواخذے کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے موقع پر عام طور پر خوش رنگ ملبوسات پہننے والی سپیکر نینسی پلوسی نے اسی سیاہ لباس کا انتخاب کیا جو انہوں نے 2019 میں ٹرمپ کے پہلے مواخذے کی کارروائی کے دوران زیب تن کیا تھا۔
انہوں نے اپنے ایوان کو بتایا کہ 45 ویں صدر نے 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پر حملے کے لیے ’غداری‘ اور ’مسلح بغاوت‘ کو ہوا دی تھی۔
کیپیٹل ہل پر ہونے والے تشدد میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
دوسری جانب مواخذے کی کارروائی کی منظوری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ کیپیٹل پر ہونے والے تشدد پر ’صدمے‘ میں تھے۔
اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا: ’میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں گذشتہ ہفتے (کیپیٹل ہل) پر ہونے والے تشدد کی مذمت کرتا ہوں۔ تشدد اور توڑ پھوڑ کی (سیاست کی) ہمارے ملک اور ہماری تحریک میں قطعی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق بدھ کی سہ پہر ہونے والی ووٹنگ میں ایوان نمائندگان کے 10 رپبلکن ارکان نے بھی ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا۔
مواخذے کی منظوری کے لیے ٹرمپ کے خلاف کلیدی ووٹ ڈالنے والی ہاؤس کی تیسری سینیئر ترین رکن لز چینی نے کہا کہ صدر کی جانب سے اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل میں فسادات پر اکسانا ’غداری‘ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایوان نمائندگان کی جانب سے منظوری کے بعد اب صدر ٹرمپ کو سینیٹ میں مواخذے کے ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم 20 جنوری سے پہلے، جب وہ اقتدار سے سبکدوش ہو چکے ہوں گے، ان کو صدارت سے ہٹانے کا امکان بہت کم ہے کیوں کہ اتنی قلیل مدت میں سینیٹ کی کارروائی مکمل ہونا ممکن نہیں ہے۔
20 جنوری کے بعد سینیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹرائل جاری رہے گا جہاں ان کو آئندہ صدارتی انتخابات میں شرکت سے روکا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے کم سے کم 18 رپبلکن سینیٹرز کی حمایت کی ضرورت ہو گی۔
دریں اثنا دی نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ سینیٹ میں 20 رپبلکن ارکان اس منصوبے کی حمایت کرسکتے ہیں، تاہم بدھ کے روز اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ سینیٹ کا اجلاس فوری طور پر نہیں بلایا جا سکتا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کے خلاف ٹرائل کی سماعت 19 جنوری کو شروع ہوسکتی ہے۔ مؤثر طریقے سے یہ تب تک نہیں ہوگا جب تک جو بائیڈن صدر نہیں بن جاتے۔
دوسری جانب وفاق کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ کیپیٹل فسادات مستقبل میں انتہائی دائیں بازو گروپس کے لیے ایک تحریک بن سکتے ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین ایک انٹیلی جنس بلیٹن میں انتباہ کیا گیا ہے کہ چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے سے جو بائیڈن کے اقتتدار سنبھالنے تک انتہائی دائیں بازو گروپس اور ان کی ملیشیا کو تشدد کی تحریک ملے گی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق بلیٹن میں کہا گیا کہ سفید فام قوم پرست، ملیشیا گروپ، خانہ جنگی سے وابستہ گروہ اور دیگر انتہا پسند قوتیں کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے کو امریکہ میں محاذ آرائی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔