سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امریکی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ سعودی عرب کو کمزور کرنے کی کوششوں سے پیچھے ہٹیں۔
’عرب نیوز‘ کو دییے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ’سعودیوں کو اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت سے انکار کرنا صرف پاگل پن ہے اور اس سے اس سمت کا اندازہ ہوتا ہے، جو یہ انتظامیہ لے رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ایرانی قیادت امریکی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ سمجھتی ہے‘ اور اس کو روکنے کے لیے ’مستقل مزاج پیغام‘ اور ’قیمت ادا کروانے کے لیے تیار ہونے‘ کی ضرورت ہے۔
پومپیو نے بائیڈن انتظامیہ کی یمن میں حوثی ملیشیا کو دہشت گرد قرار دینے کی بھی سختی سے مذمت کی اور اس بات کی نشاندہی کی کہ ’کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کرتا کہ حوثی دہشت گرد ہیں اور کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کر رہا کہ ایرانی ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔‘
انٹرویو کے دوران انہوں نے متعدد اہم امور پر روشنی ڈالی جن میں سعودی آبادی اور تیل کے بنیادی ڈھانچے پر حملوں میں اضافوں، بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کے اقدامات کے بارے میں ایرانی خیالات، یمن میں انسانی بحران کو بڑھاوا دینے میں حوثیوں کے کردار اور ٹرمپ انتظامیہ کا امریکہ اور سعودی تعلقات کو سنبھالنے جیسے معاملات شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پومپیو نے انٹرویو کے دوران کہا: ’آخر میں ایرانی قیادت، سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور ان کے اردگرد موجود سبھی لوگ ایک چیز سمجھ گئے ہیں: وہ طاقت کو سمجھتے ہیں اور جب وہ کارروائی کرتے ہیں اور انہیں کمزوری نظر آتی ہے یا پھر انہیں تسلی نظر آتی ہے یا انہیں توقع ہوتی ہے کہ مطمئن ہوجائیں گے تو وہ کام جاری رکھیں گے۔‘
دو ٹوک انداز میں خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’تو چاہے یہ وہ میزائل حملے ہوں جن کی پشت پناہی ایران کر رہا ہے یا بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں ہوں، ہم سب جانتے ہیں، ان کا خفیہ پروگرام ، خفیہ سائٹس جہاں ان کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے جن کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہم دیکھتے رہیں گے، نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا، اور ای تھری (برطانیہ، فرانس، جرمنی) کا کہنا ہے کہ بہت ہوگیا، اب ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘
پومپیو ریاست کینساس سے کانگریس کے رکن تھے، جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے اور پھر 2018 میں انہیں سیکریٹری آف سٹیٹ یعنی وزیر خارجہ کی حیثیت سے تعینات کردیا گیا۔
ان کے دور میں امریکہ نے ایرانی حکومت کو تنہا کرنے کے لیے ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی مہم اپنائی اور ’امریکیوں کو محفوظ‘ رکھنے کے لیے فوجی حملے کا آپشن کھلا رکھا۔
پومپیو نے امریکہ کو پہلی ترجیح پر نہ رکھنے کے سلسلے میں نئی امریکی انتظامیہ کی تنقید کی ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے تناظر میں۔
انہوں نے ’عرب نیوز‘ کو بتایا کہ وہ چیز جو انہیں پریشان کرتی ہے وہ ’سگنلز‘ نہیں ہیں جو بائیڈن انتظامیہ بھیجتی ہے، بلکہ ان کے تحفظات کی وجہ ’پالیسی کی سمت ہے، جس کی جانب انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ وہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘