پاکستان میں ریپڈ ماس ٹرانزٹ منصوبے کے تحت لاہور میں چلائی گئی پہلی اورنج لائن ٹرین کے لیے پہلے ہی حکومت کو کروڑوں روپے سبسڈی کی مد میں ماہانہ ادا کرنے پڑ رہے تھے، تاہم اب آمدن میں کمی سے اس پروجیکٹ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
حکومت نے اورنج لائن ٹرین کے اخراجات کم کرنے کے لیے تجاویز پر غور کرنا شروع کردیا ہے جبکہ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق حکومت کو اس بارے میں افتتاح سے قبل آگاہ کیا گیا تھا کہ خسارے پر حکومت کو سبسڈی دینی پڑے گی۔
خسارے میں اضافہ کیوں؟
جنرل مینیجر ماس ٹرانزٹ اتھارٹی اورنج لائن ٹرین محمد عزیر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اورنج لائن ٹرین منصوبہ شروع ہوتے ہی خسارے میں تھا۔ کرونا وبا سے پہلے ان ٹرینوں میں یومیہ 70ہزار شہری سفر کرتے تھے اور 40 روپے کرایہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے ماہانہ آمدنی آٹھ کروڑ 40 لاکھ تھی جبکہ اخراجات 53سے 54 کروڑ روپے ماہانہ۔‘
انہوں نے کہا: ’جب کرونا کے دوران لاک ڈاؤن ہوا اور اس کے بعد روزانہ مسافروں کی تعداد 50 ہزار تک رہ گئی تو آمدن میں ڈھائی کروڑ روپے مزید کمی آئی اور مجموعی طور پر آمدن چھ کروڑ تک رہ گئی ہے۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ اخراجات کیوں اتنے زیادہ ہیں اور آمدن میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا: ’جب سی پیک منصوبے کے تحت اورنج لائن مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح ہوا تو معاہدے کے مطابق آٹھ سال تک چینی سٹاف نے ہی ٹرین کے انتظامات سنبھالنے تھے۔ ان کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات 43 کروڑ روپے ماہانہ ہیں جب کہ بجلی کا بل ماہانہ 10سے11کروڑ روپے ہے، اس لیے اخراجات زیادہ ہیں جبکہ آمدن کافی کم ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’مسائل حکومت کی تبدیلی کے باعث ہیں، کیونکہ سابق حکومت نے اورنج لائن ٹرین چلانے کے لیے خسارے کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی حل سوچا ہوگا، جو موجودہ حکومت شاید اپنانا نہ چاہتی ہو۔ جیسے ابتدا میں اعلان ہوا کہ برینڈنگ مارکیٹنگ اور مسافروں کی تعداد میں اضافے کو تاریخی مقامات سے منسلک کر کے سیاحت کو فروغ دیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عزیر شاہ نے بتایا کہ خسارہ کم کرنے کے لیے مختلف تجاویز زیر غور ہیں جیسے ٹرینوں کی تعداد کم کر کے بجلی بچائی جائے اور مسافروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت اس منصوبے کا آغاز بھی ایک سال کی تاخیر سے کر پائی تھی اور ابتدا سے ہی کہا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ ’سفید ہاتھی‘ ہے، اس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت نے کئی دیگر منصوبوں میں سبسڈی کی پالیسی کو بھی ختم کردیا تھا۔
حکومت اورنج لائن کو مالی بوجھ کیوں سمجھتی ہے؟
حکومت پنجاب کے وزرا کئی بار یہ بیانات دے چکے ہیں کہ اورنج لائن ٹرین عوامی نہیں بلکہ ذاتی مفادات کا منصوبہ تھا جو سابق حکمرانوں نے کمیشن بنانے کے لیے بنایا تھا۔
صوبائی وزیر چوہدری ظہیر الدین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا شروع سے موقف رہا کہ شریف خاندان کاروبار بڑھانے اور کمائی کے لیے اورنج لائن جیسے منصوبے تیار کرتا ہے۔ انہوں نے اس منصوبے کو بھی کمیشن بنانے سمیت اپنے قریبی لوگوں کو نوازنے کے لیے استعمال کیا۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ پنجاب میں ان کی حکومت تبدیل ہوگی اور ان کی کارکردگی کے پس پردہ عزائم سامنے آئیں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’خزانہ خالی اور صوبہ مقروض کر کے کونسی ترقی تسلیم کی جاسکتی ہے؟ جن منصوبوں سے دکھاوا ہو جائے اور عوام مالی بحران کے باعث بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہوجائیں۔‘
صوبائی وزیر کے مطابق خسارہ کروڑوں میں ہونے سے کئی عوامی منصوبوں پر خرچ ہونے والے فنڈز متاثر ہورہے ہیں, کیونکہ حکومت آمدن اور اخراجات کے حساب سے ہی منصوبہ بندی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا: ’کھوکھلے اور دکھاوے کے منصوبوں سے کوئی صوبہ یا ملک ترقی نہیں کرسکتا مسلم لیگ ن اس پر شرمندگی کی بجائے اورنج ٹرین نہ چلا پانے کے طعنے دے کر لوگوں کو گمراہ کر رہی ہے۔‘
سابق حکومت کی پالیسی کے مطابق اس منصوبے کے تحت لاہور شہر میں چار مختلف روٹس پر ماس ریپڈ ٹرانزٹ ٹریک بچھائے جانے تھے۔
میٹرو بس (گرین لائن) اور اورنج لائن ٹرین (اورنج لائن) ہی نہیں بلکہ مستقبل میں بلیو لائن اور پرپل لائن بنانے کا بھی منصوبہ تھا، جن پر فل الحال عمل درآمد روک دیا گیا ہے اور اس منصوبہ بندی کے تحت کوئی اقدام دکھائی نہیں دیتا۔