افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایئر پورٹ پر ہونے والے خود کش حملے کے چار ماہ بعد امریکی اور غیرملکی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے مختلف معلومات کے ٹکڑے جوڑ جوڑ کر حملہ آور کے قریب پہنچنے کی کوشش کی ہے۔
کابل ایئر پورٹ پر ہونے والے اس حملے میں 13 امریکی اہلکاروں سمیت متعدد افراد ہلاک ہو گئے تھے اور اس حملے کو افعانستان میں جاری 20 سالہ جنگ کے دوران ہونے والے سب سے جان لیوا حملوں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ملٹری کمانڈرز کا کہنا ہے کہ وہ اب ان معلومات کو استعمال کر کے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے اس سیل کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کے خیال میں اس حملے میں ملوث تھا۔
ان کے خیال میں اس سیل کے ارکان ان شدت پسندوں میں شامل ہو سکتے ہیں جنہیں خلیج فارس سے اڑائے جانے والے ایم کیو-9 مسلح ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
کابل ایئر پورٹ پر امریکی انخلا کے دوران حملہ کرنے والے کا نام شدت پسند تنظیم داعش نے عبدالرحمان ال لوگاری بتایا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عبدالرحمان ال لوگاری انجینیئرنگ کا سابق طالب علم تھا اور ان کئی شدت پسندوں میں شامل تھا جنہیں افعان طالبان نے کنٹرول سنبھالنے کے بعد دو افغانی ہائی سکیورٹی جیلوں سے رہا کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق طالبان نے جیلوں کو بلا امتیاز خالی کر دیا، نہ صرف اپنے ارکان کو رہا کیا بلکہ دولت اسلامیہ خراسان کے جنگجوؤں کو بھی چھوڑ دیا۔
اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے ایک سینیئر اہلکار ایڈمنڈ فٹن براؤن نے دوحہ میں ہونے والی ایک حالیہ سکیورٹی کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ’اس بات کی وضاحت کرنا انتہائی مشکل ہے کہ جو لوگ خود طالبان کے لیے خطرہ ہیں انہیں چھوڑنے کے پیچھے کیا سوچ تھی۔‘
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عبدالرحمان لوگاری امریکیوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ 2017 میں سی آئی اے نے ہی بھارتی خفیہ ایجنٹس کو یہ خبر دی تھی کہ وہ (لوگاری) نئی دلی پر خود کش حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ بھارتی حکام نے حملے کو ناکام بنایا اور لوگاری کو سی آئی اے کے حوالے کر دیا جس کے بعد لوگاری کو افغانستان بھیج دیا گیا جہاں انہیں بگرام ہوائی اڈے پر پروان جیل میں رکھا گیا۔
عبدالرحمان لوگاری کو اس وقت رہا کر دیا گیا جب کابل کا کنٹرول طالبان نے سنبھال لیا اور افراتفری کا خوف پیدا ہو گیا۔
ملٹری حکام کے مطابق ٹھیک 11 روز بعد 26 اگست کو ایک خود کش بمبار اپنے کپڑوں کے نیچے 25 کلو دھماکہ خیز مواد پہنے امریکی فوجیوں کے ایک گروپ کے قریب آتا ہے جو حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ملک چھوڑ کر جانے والوں کو چیک کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بمبار نے تب تک وہاں انتظار کیا جب تک اس کی تلاشی کی باری نہیں آئی اور اسی وقت اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
امریکی حکام کے مطابق طالبان نے افغانستان میں داعش کے سابق اعلیٰ لیڈر کو قتل کر دیا اور دیگر 12 ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کر دیا جن میں اندازاً چھ ہزار طالبان، 1800 دولت اسلامیہ خراسان اور تقریباً تین درجن القاعدہ کے جنگجو شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق اہلکار بروس او ریڈل کہتے ہیں کہ ’اس غلطی نے افغانستان میں سینکڑوں دہشت گردوں کو دوبارہ سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔‘
نیو یارک ٹائمز کے مطابق ان میں سے ایک عبدالرحمان ال لوگاری تھا۔ لوگاری ایک افغان کاروباری کا بیٹا تھا جن کا کاروبار کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان آنا جانا لگا رہتا تھا۔ لوگاری 2017 میں بھارت چلا گیا جہاں اس نے نئی دلی کے قریب مانوو رچنا یونیورسٹی میں اینجرنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق دولت اسلامیہ خراسان کا حصہ بننے والے لوگاری کو نئی دلی پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے پر حراست میں لیا گیا اور پھر سی آئی اے کے حوالے کیا گیا تھا تاہم نیو یارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عبدالرحمان ال لوگاری نے پلِ چرکی اور پروان جیل دونوں ہی میں وقت گزارا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کب اور کیسے دولت اسلامیہ خراسان کے اس سیل کا حصہ بنے جس نے حملہ کیا یا وہ کیوں اور کیسے کابل ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے بنے۔
تاہم اب اس حملے کے کئی ماہ بعد امریکی خفیہ ایجنسی کے تجزیہ کاروں اور ملٹری حکام کا کہنا ہے کہ ان کی توجہ دولت اسلامیہ خراسان کے اس سیل کو جاننے پر مرکوز ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا یہ سیل مستقبل میں مغرب کے خلاف ممکنہ حملوں کی منصوبہ بندی تو نہیں کر رہا۔