کرکٹ میں آسٹریلوی کھلاڑی جتنے ’جھگڑالو‘ اور ’بددماغ‘ مشہور ہیں اتنے ہی اپنی روایات اور اپنے اسلاف کی عزت کے پابند بھی ہیں۔ وہ میدان میں میچ کے دوران چاہے جتنے طعن و تشنیع کرلیں لیکن گراؤنڈ سے باہر زندہ دل اور روایات کے پاسدار نظر آتے ہیں۔
آسٹریلیا کے سابق کپتان مارک ٹیلر مثبت سوچ اور دوستانہ مزاج کے حامل انسان ہیں۔ وہ کرکٹ کے کھیل میں بھی اعلیٰ اقدار کو پیش نظر رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
مارک ٹیلر 1998 میں پاکستان کا دورہ کرنے والی آسٹریلوی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ اس دورہ کی خاص بات یہ تھی کہ آسٹریلوی ٹیم نے طویل مدت کے بعد پاکستان میں میچ اور سیریز جیتی تھی۔ اس سے قبل 1959 کے دورے کے بعد پہلی دفعہ کیینگروز پاکستان کو اس کی اپنی سرزمین پر شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
آسٹریلوی ٹیم نے اس دورے کی ابتدا راولپنڈی سے کی تھی اور پہلا ہی ٹیسٹ جیت کر شاندار آغاز کیا تھا۔ راولپنڈی کی جیت کے پیچھے سٹیو وا کی سنچری اور لیگ سپنر سٹوارٹ میک گل کی خطرناک بولنگ تھی جس نے ٹوٹ پھوٹ کا شکار پاکستان ٹیم کونشانہ پر لے لیا تھا۔
راولپنڈی کی جیت کے بعد کینگروز کا اعتماد بڑھ چکا تھا اور دورے میں اب پاکستانی سپنرز کا خوف زائل ہوچکا تھا۔ حالانکہ پاکستان کے پاس مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق جیسے اعلیٰ پائے کے سپنر موجود تھے لیکن وکٹ سے فائدہ کینگرو سپنر نے اٹھا لیا تھا۔
دوسرا ٹیسٹ پشاور کے ارباب نیاز سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔
پشاور کی پچ راولپنڈی کی شکست کے بعد بلے بازوں کے لیے موزوں بنائی گئی تھی جسے دیکھ کر آسٹریلوی کپتان کے منہ میں پانی اتر آیا تھا۔ مارک ٹیلر کہتے ہیں کہ ’کسی ہائی وے کی طرح سپاٹ پچ پر میں دعا کررہا تھا کہ ٹاس جیت جاؤں اور ایسا ہی ہوا !!! شاید خدا میرے ساتھ تھا۔‘
مارک ٹیلر نے اپنے دوسرے اوپنر مائیکل سلیٹر کو تو جلدی کھو دیا تھا لیکن جسٹن لینگر کے ساتھ 295 رنز کی پارٹنرشپ کر کے انہوں نے پاکستانی بولرز کو اکتوبر کی سخت سردی میں پسینہ میں نہلا دیا تھا۔
پہلے دن مارک ٹیلر اپنی سنچری مکمل کر چکے تھے اور جسٹن لینگر ان کا ساتھ دے رہے تھے۔
دوسرے دن ان کی بیٹنگ میں وہی تازگی اور بشاشیت تھی، اسی طرح شاٹ لگ رہے تھے جیسے پہلے دن ! وہ کہتے ہیں کہ گیند اس طرح بلے پر آ رہی تھی کہ ’جیسے فٹ بال اور پھر قسمت نے یاوری کی کہ سعید انور نے دو دفعہ میرے آسان کیچ چھوڑ دیے تھے، جس سے میرے حوصلوں کو قسمت کا سہارا بھی مل گیا تھا۔‘
ٹیلر دوسرے دن اتنی تیزی سے کھیل رہے تھے کہ کھانے کے وقفے تک انہوں نے ڈبل سنچری مکمل کرلی تھی۔ دوسری جانب پاکستان کا کوئی بولر ان کو پریشان نہیں کرسکا تھا، کئی بار تو انہوں نے بلائنڈ پل شاٹ اور ہک شاٹ کھیلے لیکن گیند نے ہر بار باؤنڈری کا رخ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارک ٹیلر چائے کے وقفے تک اپنے 250 رنز مکمل کرچکے تھے جبکہ ان کے ساتھ وکٹ پر پنٹر ( رکی پونٹنگ ) تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب میں ٹرپل سنچری کے بارے میں سوچ رہا تھا اور پنٹر بھی حوصلہ دے رہا تھا۔‘
’دوسرے دن کا سورج جب اپنی آخری حدوں تک پہنچ رہا تھا تو میں ٹرپل سنچری بنا چکا تھا۔‘
ٹیلر کہتے ہیں کہ ’جب میں ٹرپل سنچری بنا چکا تھا تو میرے دماغ میں آسٹریلیا کی طرف سے ٹرپل سنچری کرنے والے باب کوپر بابی سمپسن اور پھر سب سے زیادہ ڈان بریڈمین تھے جن سے میں چند دنوں قبل ان کے گھر پر اپنی بیٹنگ کے لیے مشورے لینے گیا تھا۔‘
’میں جب 333 پر پہنچا تو میرے سامنے سر ڈان بریڈمین کا چہرہ گھومنے لگا، مجھے ایسا لگا کہ مجھے ان کا ریکارڈ توڑ کر ان سے شرمندگی ہوگی حالانکہ میں یہ سب کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کھیل کے آخری اوور میں مجھے ایک رن اور ملا اور اب میں ڈان بریڈمین کے برابر پہنچ چکا تھا۔ کھیل جب ختم ہوا تو میں اور بریڈمین دونوں ایک ہی سکور 334 پر تھے۔‘
’میچ کے بعد آسٹریلین میڈیا نے گھیر لیا اور ہر ایک کا سوال یہی تھا کہ بریڈمین کا ریکارڈ توڑ کر کیسا لگے گا۔‘
وہ اس دن کے بارے میں مزید کہتے ہیں کہ ’میں میچ سے ہوٹل آنے کے بعد گھنٹوں سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اس سوچ و بچار میں دن بھر کی تھکن کے باوجود میں رات دو بجے تک جاگتا رہا اور جب نیند کی آغوش میں گیا تو میرے تحت الشعور نے فیصلہ کر لیا تھا۔‘
’تیسرے دن کی صبح جب دوبارہ بیٹنگ کے لیے ہمیں جانا تھا تو میں صرف ٹیم ہی نہیں بلکہ خود کو بھی ڈیکلئیر کرچکا تھا۔ 334 کے سکور پر ناٹ آؤٹ رہ کر جہاں میں نے برائن لارا کے 375 کو نظر انداز کیا تھا وہیں میں نے دنیائے کرکٹ کے لازوال بادشاہ سر ڈان بریڈ مین کے عزت و احترام میں ان سے آگے نکلنے کا موقع چھوڑ دیا تھا۔‘
مارک ٹیلر کے مطابق ’مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اگر میں نے بریڈ مین سے زیادہ رنز کر لیے تو میں ان سے آنکھیں نہیں ملا پاؤں گا۔‘
پشاور ٹیسٹ تو ڈرا ہوگیا تھا لیکن تاریخ میں ایک کرکٹر کا دوسرے عظیم کرکٹر کو اس طرح خراج تحسین پیش کرنا ناقابل فراموش واقعہ بن گیا۔
سرڈان بریڈمین کو جب اس واقعے سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے مارک ٹیلر کا شکریہ ادا کیا اور افسوس کیا کہ وہ ان کی اس اننگز کو بیماری کے باعث دیکھ نہ سکے۔
مارک ٹیلر کا یہ فیصلہ شاید کرکٹ کے اعداو شمار کے لیے احسن نہ ہو لیکن احساسات کی دنیا میں اسے سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔
ایسی عزت و توقیر ڈان بریڈمین کا ہی حق ہے لیکن اس عمل کے پیچھے مارک ٹیلر نے بھی اپنا نام تاریخ میں رقم کرلیا ہے۔