آسٹریلیا کے کرکٹرز 1998 کے بعد پاکستان کا پہلا دورہ مکمل کرنے کے بعد بدھ کو وطن واپس جا رہے ہیں۔
پیٹ کمنز کی ٹیم نے تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز 1-0 سے جیتی، ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں 2-1 سے شکست کھائی اور واحد ٹوئنٹی 20 میں فتح کے ساتھ واپسی کے سفر کا آغاز کیا۔
اے ایف پی سپورٹس نے 2009 میں لاہور میں سری لنکا کی ٹیم بس پر حملے کے بعد ٹیسٹ کھیلنے والی کسی بڑی ٹیم کی جانب سے پاکستان کے پہلے مکمل دورے سے سیکھی گئی پانچ چیزوں پر روشنی ڈالی ہے۔
۔ آسٹریلین سکواڈ کا کسی ریاستی سربراہ کی طرح کی سکیورٹی نے استقبال کیا، جس میں سینکڑوں پولیس اور فوجی ہوٹلوں اور راستوں کی حفاظت کر رہے تھے۔
راولپنڈی، کراچی اور لاہور میں میچز بغیر کسی واقعے کے گزر گئے اور کھلاڑی سخت کوویڈ پروٹوکول کے باوجود گولف کھیلنے باہر جانے میں کامیاب رہے۔
پاکستان امید کر رہا ہے کہ آسٹریلیا کے کامیاب دورے نے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی واپسی کی راہ ہموار کردی ہے، جب دونوں ٹیموں نے گذشتہ سال پاکستان میں غیر واضح سکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے سیریز ختم کردی تھی۔
۔ ٹیسٹ سیریز بے جان پچوں سے متاثر ہوئی، جس نے گیند بازوں کے لیے کچھ بھی پیش نہیں کیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے ’اوسط سے کم‘ قرار دی جانے والی راولپنڈی کی پچ پر افتتاحی میچ میں صرف 14 وکٹیں گریں اور 1187 رنز والا ایک بوریت بھرا میچ ڈرا پر ختم ہوا۔
کراچی میں دوسری ٹیسٹ پچ بھی سست تھی اور آخری دن کے آخری سیشن میں ہی ڈراما دیکھنے میں آیا جب وکٹیں گرنے کے باوجود پاکستان ڈرا کرنے میں کامیاب رہا۔
پھر کمنز نے جرات مندانہ ڈیکلریشن کی جب لاہور ٹیسٹ میں تقریباً دو دن کا کھیل باقی تھا تاکہ آسٹریلیا کو جیت اور ایک اور بےجان پچ پر سیریز حاصل ہو سکے۔
کم از کم بلے بازوں کے لیے دوستانہ پچیں سفید گیند کے کھیل میں زیادہ سنسنی کے لیے بنائی گئیں۔
خاص بات یہ تھی کہ بابر اعظم اور امام الحق دونوں نے سنچریاں سکور کیں جب پاکستان نے سنسنی خیز انداز میں 349 رنز کا ریکارڈ ایک روزہ رنز کا ہدف مکمل کرتے ہوئے سیریز کو زندہ رکھا۔
۔ آسٹریلیا اس وقت مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا جب اس نے پاکستان میں قدم رکھا کیونکہ اس کی تحقیق اور تیاری میں ڈومیسٹک میچ کی کارکردگی کا تفصیلی مطالعہ بھی شامل تھا۔
اس کا نتیجہ آسٹریلیا کا سکواڈ تھا جو ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے قابل تھا۔
مہمان ٹیم کے پاس سپن اور فاسٹ باولنگ کا اچھا امتزاج تھا اور انہوں نے تجربہ کار بلے بازوں کا انتخاب کیا جو حالات کے مطابق ڈھل سکتے تھے۔ ان میں پاکستان میں پیدا ہونے والے عثمان خواجہ بھی شامل تھے جو اس دورے کی کامیابی کی بڑی کہانیوں میں سے ایک تھے۔
۔ خواجہ کے والدین انہیں کھیلتے دیکھنے کے لیے سفر کرنے سے قاصر تھے لیکن ان کے بیٹے نے انہیں فخر کرنے کا موقع دیا کیونکہ انہوں نے 165.33 کی اوسط سے 496 رنز بنائے اور دو سنچریاں بنا کر سیریز میں سب سے زیادہ سکور کرنے والے کھلاڑی رہے۔
خواجہ 2019 کے بعد سے نہیں کھیلے تھے اور انہیں جنوری میں سڈنی میں چوتھے ایشز ٹیسٹ کے لیے واپس طلب کیا گیا تھا۔
انہوں نے ایس سی جی میں ہر اننگز میں سنچری سکور کی اور 97، 160، 44 ناٹ آؤٹ، 91 اور 104 ناٹ آؤٹ کے اس دورے میں ان کے شاندار سکور نے آسٹریلیا کے آرڈر میں سب سے
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اوپر اس 35 سالہ کھلاڑی کی جگہ مستحکم کردی۔
۔ پاکستان کے کپتان بابر اعظم پہلے ہی سفید گیند کے دنیا کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک کے طور پر مشہور تھے لیکن اب وہ آسٹریلیا کے سٹیو سمتھ، بھارت کے وراٹ کوہلی، انگلینڈ کے جو روٹ اور نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن کی صف میں جدید دور کے ماسٹرز کے طور پر شامل ہو سکتے ہیں۔
محدود اوورز کے کپتان ایرون فنچ نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ انہیں کچھ دیر کے لیے اب بابر کو مزید بولنگ کرنے کی ضرورت نہیں۔
بابر تینوں فارمیٹ میں کامیاب رہے لیکن کراچی میں دوسرے ٹیسٹ کو بچانے کے لیے ان کی 425 گیندوں، 607 منٹ، کیریئر کی بہترین 196 رنز ایک یادگار اننگ تھی۔
ان کی آخری ٹیسٹ سنچری کے دو سال بعد ان کا غیر معمولی مظاہرہ تاریخ میں کسی کپتان کی چوتھی اننگز کا سب سے بڑا سکور تھا۔
ون ڈے سیریز میں بھی ان کی پرفارمنس میں کوئی کمی نہیں آئی کیونکہ انہوں نے لاہور میں آخری دو میچوں میں بیک ٹو بیک سنچریاں بنا کر پاکستان کی 2-1 سے فتح میں قیادت کی۔