امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کانگریس کو آگاہ کیا ہے کہ وہ ترکی کو 20 ارب ڈالر مالیت کے ایف 16 لڑاکا طیاروں کی ممکنہ فروخت کی تیاری کر رہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس معاملے سے واقف ذرائع نے جمعے کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ کی اس ممکنہ ڈیل پر ایک سینئیر امریکی قانون ساز کی جانب سے فوری اعتراض سامنے آیا جو طویل عرصے سے انقرہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے جمعرات کو کانگریس کو غیر رسمی نوٹس بھیجا تھا جس میں سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں اسلحے کی فروخت کی نگرانی کرنے والی کمیٹیوں کو ترکی کے ساتھ اس مجوزہ معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا گیا۔
ترکی، جو نیٹو کا رکن ملک بھی ہے، نے اکتوبر 2021 میں اپنے موجودہ جنگی طیاروں کے بیڑے کے لیے لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن سے مزید 40 ایف 16 لڑاکا طیارے اور تقریباً 80 اپ گریڈیشن کٹس خریدنے کی درخواست کی تھی۔
دونوں فریقوں کے درمیان اس ممکنہ ڈیل پر تکنیکی بات چیت حال ہی میں ختم ہوئی تھی۔
بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ اس فروخت کی حمایت کرتی ہے اور اس کی منظوری حاصل کرنے کے لیے غیر رسمی بنیادوں پر کانگریس کے ساتھ گذشتہ کئی مہینوں سے رابطے میں ہے تاہم یہ معاہدہ تاحال قانون سازوں کی منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس حوالے سے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے ڈیموکریٹک چیئرمین سینیٹر باب مینینڈیز نے ایک بیان میں کہا: ’جیسا کہ میں نے بارہا واضح کیا ہے میں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے انقرہ کو نئے ایف 16 طیاروں کی فروخت کی سختی سے مخالفت کرتا ہوں۔‘
ایک جانب ان طیاروں کی فروخت ابھی بھی غیر رسمی جائزے کے عمل میں ہے تاہم کانگریس کی جانب سے بھی اس فروخت کی منظوری کا امکان نہیں ہے۔
ادھر ترکی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو کی رکنیت کی توثیق کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔
شمالی یورپ کے دونوں ممالک نے گذشتہ سال مئی میں کئی دہائیوں سے جاری اپنی غیرجانبداری پالیسی کو ختم کرتے ہوئے یوکرین پر روس کے حملے کے جواب میں نیٹو میں شمولیت کی درخواست کی تھی لیکن ترکی نے اعتراض کرتے ہوئے سویڈن اور فن لینڈ پر کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سمیت عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
اس دوران ترکی کے وزیر خارجہ اس معاملے پر بات چیت کے لیے واشنگٹن روانہ ہو رہے ہیں۔
سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے ڈیموکریٹک چیئرمین سینیٹر باب مینینڈیز نے اپنے بیان میں کہا کہ ترک صدر طیب اردوغان انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کو نظر انداز کر رہے ہیں اور پڑوسی نیٹو اتحادیوں کے خلاف تشویش ناک اور غیر مستحکم رویے میں ملوث ہیں۔
ان کے بقول: ’جب تک صدر اردوغان اپنی دھمکیوں سے پیچھے نہیں ہٹتے اور ایک قابل اعتماد اتحادی کی طرح کام شروع نہیں کرتے، میں اس فروخت کو منظور نہیں کروں گا۔‘
مینینڈیز نے یہ بھی کہا کہ وہ یونان کے لیے نئے ایف 35 لڑاکا طیاروں کی فروخت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
انہوں نے انقرہ کے حریف ایتھنز کو نیٹو کا ایک قابل اعتماد اتحادی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فروخت سے ’ہمارے اجتماعی دفاع، جمہوریت سمیت مشترکہ اصولوں کا دفاع کرنے کے لیے دونوں ممالک کی انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے صلاحیتوں کو تقویت ملے گی۔‘
امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات کئی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
حکام کے مطابق امریکہ ترکی کی جانب سے ایف 16 لڑاکا طیارے خریدنے کی درخواست پر غور کر رہا ہے۔ یہ درخواست انقرہ کی طرف سے روسی میزائل سسٹم کی خریداری کی وجہ سے مزید جدید ایف 35 طیاروں کے امریکہ سے معاہدہ ختم ہونے کے بعد کی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انقرہ کی جانب سے روس سے دفاعی نظام خریدنے کے بعد واسنگٹن نے ترکی کو ایف 35 طیاروں کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے گذشتہ سال اکتوبر میں کہا تھا کہ انقرہ منسوخ شدہ ایف 35 معاہدے کے لیے مختص کیے گئے 1.4 ارب ڈالر سے سستے ایف 16 طیارے خریدنا چاہتا ہے۔
لیکن ایک امریکی اہلکار نے کہا تھا کہ کسی بھی ممکنہ ایف 16 کے آرڈر کو ایسے ہی مسئلے سے خطرہ ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے پچھلا آرڈر منسوخ ہوا، جو کہ ترکی کا روس سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے کا فیصلہ ہے۔
ایس 400 نظام جو حملہ آور ہوائی جہاز کو ٹریک کرنے اور اسے مار گرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کو نیٹو کے بیشتر ممالک میں اپنائے گئے ایف 35 مشترکہ سٹرائیک فائٹر پروگرام کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
2002 میں ترکی نے نیٹو کے کئی دوسرے اتحادیوں کی طرح ایف 35 خریدنے پر رضامندی ظاہر کی اور پانچ سال بعد اس کی تیاری میں حصہ لینے کے لیے ایک معاہدہ طے پایا، جو کہ ترکی کی صنعت کے لیے ممکنہ طور پر اربوں ڈالر کا معاہدہ ہے۔
جولائی 2019 میں ترکی کی وزارت دفاع کو ایس 400 نظام کی پہلی ترسیل موصول ہونے کے ایک ہفتے بعد واشنگٹن نے ترکی کے ایف 35 پروگرام کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔