تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے پیر کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر اپنی ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کو کامیاب قرار دیا ہے لیکن تاجر برابری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ وہ اس سے لاتعلق رہے۔
ٹی ایل پی کے ایک ترجمان صدام بخاری نے کہا کہ انہوں نے حالیہ بڑھائی جانے والی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے خلاف ملک بھر میں ایک روز کی پرامن شٹر ڈاؤں ہڑتال کی کال دی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال کامیاب رہی ۔’میں نے خود مختلف علاقوں کا دورہ کر کے دیکھا کہ دکانیں بند تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہڑتال میں معیشت کا تو نقصان ہوا لیکن غریب کا فائدہ ہوا اور وہ اس طرح کہ ایک دن میں حکومت کا ریوینو کم اکٹھا ہوا ہو گا جس سے انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ انہیں کیا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی نے حکومت سے اپنے اخراجات اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو تین دن کا الٹی میٹم دیا گیا تھا جس کے بعد ہی ہڑتال کی گئی۔
دوسری جانب چیئرمین سپریم کونسل آل پاکستان انجمن تاجران نعیم میر نے کہا کہ ٹی ایل پی نے ہڑتال کی کال ان کی مشاورت یا اعتماد میں لے بغیر دی۔
’ہمیں ان سے صرف اتنا گلہ ہے کہ اگر وہ ہم سے پہلے مشاورت کرتے تو ہم ضرور اس میں سے کوئی اچھا نتیجہ نکالتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ٹی ایل پی کی ہڑتال کامیاب تھی تو کیا کل صبح حالات ٹھیک ہو گئے ہوں گے؟ مہنگائی ختم ہو چکی ہوگی؟
’ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ جو مہنگائی کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کر رہے ہیں اس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں نکلے گا یہ ایک بے مقصد مشق تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ٹی ایل پی نے مختلف تاجروں سے ٹیلی فونک رابطے کیے تھے،ان کے ساتھ نچلی سطح پر ان سے ملے بھی اور اپیلیں بھی کیں، مارکیٹوں میں بینر لگائے، ریلیاں نکالیں اور احتجاجی کیمپ بھی لگائے۔
’ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن مجموعی طور پر تاجر برادری نے اس ہڑتال سے اعلان لا تعلقی کیا تھا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ٹی ایل پی نے دھونس پر ہڑتال کروائی، ان کے جتھے مارکیٹوں کے چکر لگاتے رہے اور خوف و ہراس پھیلاتے رہے ہیں۔‘
ان الزامات پر ترجمان ٹی ایل پی صدام بخاری نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’ان کے ساتھی مارکیٹوں میں تاجروں سے ضرور ملے ہیں لیکن ان کی پڑتال پرامن تھی۔‘
نعیم میر نے مزید کہا کہ اس حوالے سے پولیس اور انتظامیہ کا کردار آج بہت منفی تھا۔ ’کسی بھی مارکیٹ میں پولیس تاجروں کی حفاظت کے لیے موجود نہیں تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی، انتظامی سطح پر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سطح پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی ایل پی کے احتجاجی جتھے مارکیٹوں میں اپنی دہشت پھیلاتے رہے اور وہ تاجران جنہوں نے صبح کے وقت اپنی دکانیں کھولیں تھیں انہیں ڈر کے مارے دکانیں بند کرنا پڑیں اور جب وہ چلے گئے تب دکان دار آدھا شٹر ڈاؤن کر کے اپنا کاروبار کرتے رہے۔
لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ نے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن تاجر برادری کو تنگ کرنے اور کسی بھی شخص کو زبردستی دکانیں، کاروبار بند کروانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے تاجروں کو مکمل یقین دہانی کروائی کہ تاجر بلاخوف و خطر مارکیٹیں کھولیں انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
انہوں نے تاجروں سے کہا کہ وہ دکانیں بند کرنے کے لیے دھمکیوں یا ہراساں کیے جانے پر پولیس کو اطلاع دیں کیونکہ غندہ گردی کی اجازت کسی کو نہیں دی کائے گی نہ ہی کسی کو قانون ہاتھ میں لینے دیں گے۔
لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے صدر سہیل سرفراز منج نے بتایا کہ لبرٹی سمیت گلبرگ میں تمام دکانیں کھلی رہیں۔
’ہم اس ہڑتال کا حصہ نہیں بن سکتے تھے۔ کچھ روز قبل تحریک لبیک پاکستان کی شوریٰ کے اراکین مجھ سے ملاقات کرنے آئے تھے لیکن میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ پہلے ہی لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہیں ایسے میں لوگ کاروبار بند کر کے اپنا نقصان نہیں کریں گے۔‘
لاہور کے اردو بازار کے ایک تاجر محمد صدیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اردو بازار کی سو فیصد دکانیں بند تھیں کیونکہ ٹی ایل پی کے کچھ لوگ موٹر سائیکلوں پرمارکیٹ میں گھوم پھر رہے تھے۔
’انہوں نے دکانیں بند کرنے کا دباؤ نہیں ڈالا نہ کسی سے زور زبردستی کی بس وہ یہ کہہ رہے تھے کہ یہ ہڑتال ہمارے حقوق کے لیے کی گئی ہے اس لیے ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاہور میں کچھ جگہوں پر دکانیں بند رہیں جیسے انارکلی، نسبت روڈ، ہال روڈ، اردو بازار، شاہ عالم مارکیٹ وغیرہ لیکن پوش علاقوں میں کسی قسم کی کوئی شٹر ڈاؤن ہڑتال نہیں دیکھنے میں آئی۔
کراچی سے ہماری نمائندہ صالحہ فیروز خان کے مطابق بلدیہ ٹاؤن، اتحاد ٹاؤن، لیاقت آباد، اورنگی ایک بلاک اور اطراف کے علاقوں میں دکانیں اور کاروبار بند رہا۔
خیبر پختونخوا سے ہمارے نمائندے اظہار اللہ نے صدر انجمن تاجران صدربازار مجیب الرحمان سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ پشاور کی تمام معروف مارکیٹیں اور بازار معمول کے مطابق کھلیں رہیں۔
ان میں صدر بازار، خیبر بازار اور یونیورسٹی روڈ پر واقع بڑے برانڈزکی دکانیں شامل ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی وہاں کے رہائشیوں کے مطابق کاروبار زندگی معمول کے مطابق چلتا رہا۔
کوئٹہ سے ہمارے نمائندے ہزار بلوچ نے بتایا کہ تحریک لبیک کی ہڑتال کی کال پر لسبیلہ کے علاقے اوتھل اور حب میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی جبکہ وندر میں ریلی نکالی گئی۔ اس کے علاوہ ڈھاڈر میں بھی ہڑتال ہوئی جبکہ باقی جگہوں پر معمول کا کام جاری رہا۔