فرسٹ رپبلک بینک امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے تمام بڑے امریکی بینک میدان میں آ گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس کی وجہ سے اب ان خدشات میں کمی آئی ہے کہ فرسٹ رپبلک بینک دیوالیے کا شکار ہونے والا اگلا امریکی علاقائی بینک ہو سکتا ہے۔
اس سے پہلے امریکہ میں سلیکون ویلی بینک اور سگنیچر بینک دیوالیہ ہو چکے ہیں۔
امریکہ کے 11 نجی بینکوں پر مشتمل کنسورشیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ فرسٹ رپبلک بینک میں 30 ارب ڈالر جمع کروائیں گے۔
ان بینکوں میں بینک آف امریکہ، سٹی گروپ اور جے پی مورگن چیز بھی شامل ہیں۔
گذشتہ ہفتے درمیانی حجم کے تین بینکوں کا دیوالیہ نکلنے کے بعد امریکہ میں بینکاری نظام کو سہارا دینے کے لیے یہ سارے بڑے بینک ڈرامائی طور پہ سامنے آئے ہیں۔
11 امریکی بینکوں پر مشتمل اس کنسورشیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’امریکہ کے سب بڑے بینکوں کے اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فرسٹ رپبلک بینک جتنے حجم کے سب بینکوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم سب اپنی مالی طاقت اور سرمائے کو بڑے نظام میں لگا رہے ہیں جہاں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔‘
اس سب کے باوجود جمعرات کو امریکی سٹاک ایکسچینج میں فرسٹ رپبلک بینک کے شیئرز میں 17 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔
30 ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی شکل میں فرسٹ رپبلک بینک کو ملنے والا یہ ریلیف اپنی افادیت زیادہ برقرار نہیں رکھ سکا۔
قبل ازیں ایک دن کے بعد بینک کے شیئرز کی قیمتوں میں 10 فیصد کا اضافہ ہوا اور 17 فیصد پر ٹریڈنگ رک گئی۔
تاہم بعد مارکیٹ ٹریڈنگ کے شیئرز تیزی سے گرے اس دوران 15.6 ملین شیئرز کا کاروبار ہوا۔
یہ کیوں ہو رہا ہے؟
نیوز ویب سائٹ آؤٹ لک انڈیا ڈاٹ کام کے مطابق سلیکون ویلی بینک اور سگنیچر بینک کا زوال تاریخی ہے۔
’یہ بینک اتنی تیزی سے ناکامی کی طرف گئے کہ کسٹمرز کی جانب سے بیک وقت اپنی رقوم بینک سے نکلوانے کی مکمل مثال قائم ہو گئی۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے ملک میں بینکنگ بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔
آؤٹ لُک ایکسپریس کے مطابق بینکنگ کے بحران کی وجہ وہ گہرا مسئلہ ہو سکتا ہے جو امریکی بینکنگ ایکو سسٹم کی خرابیوں کو ظاہر کرتا ہے۔
اس نظام کی توجہ ریکارڈ افراط زر، مشکوک بیلنس شیٹ اور بڑھتی ہوئی شرحوں پر مرکوز ہوتی ہے۔
فیڈرل ڈپازٹ انشورنس کارپوریشن (ایف ڈی آئی سی) کے سربراہ مارٹن گرونبرگ نے گذشتہ ہفتے امریکی مالیاتی نظام میں 620 ارب ڈالر کے خطرے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ اتوار تک تین بینک بحران کا شکار ہو گئے۔ سلور گیٹ کیپٹل کارپوریشن تیسرے نمبر پر رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک بینک کو اس وقت شرح سود کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب شرحیں کم وقت میں تیزی سے بڑھ جاتی ہیں۔ امریکہ میں بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔
فیڈرل ریزرو مارچ 2022 سے شرحوں میں جارحانہ اضافہ کر رہا ہے۔ افراط زر کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں فیڈرل ریزرو نے اب تک شرحوں میں 4.5 فیصد اضافہ کیا ہے۔ اسی تناسب سے سود کی شرح بڑھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق 2022 کے آغاز کے مقابلے مارچ 2023 میں ایک سال کے امریکی حکومتی ٹریژری نوٹوں پر سود کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ ان نوٹوں میں سرمایہ کاری کریں گے وہ سود کی مد میں زیادہ رقم کمائیں گے لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان نوٹوں کی قیمت کم ہو گئی ہے۔
30 سالہ ٹریژریز کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ جب سکیورٹی پر سود کی شرح بڑھ جاتی ہے تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے۔ سود کی شرحوں میں تیزی سے یہ اضافہ قرض کی قدر میں بھی کمی کا سبب بن سکتا ہے جو پہلے جاری کیا گیا تھا (جیسے کارپوریٹ بانڈز یا سرکاری قرضہ)۔ یہ مارکیٹ میں مسلسل ردعمل کا سبب بن سکتا ہے۔
سادہ لفظوں میں، سود کی شرح کا خطرہ جس سے سکیورٹی کی مارکیٹ ویلیو میں کمی واقع ہوتی ہے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے جب تک کہ مالک اسے میچیئور ہونے تک برقرار رکھ سکتا ہے اس وقت وہ بغیر کسی نقصان کے اپنی اصل رقم لینے کے قابل ہو جائے گا۔ نقصانات بینک کی بیلنس شیٹ پر پوشیدہ رہیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ غائب ہو جائیں گے۔
اس کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں بینکنگ کی تباہی کے 'متعدی اثرات' محدود ہوں گے، جس سے ممکنہ طور پر ٹیک اسٹارٹ اپس اور آئی ٹی فرمز کسی حد تک متاثر ہوں گی۔ تاہم، اگر یہ مسئلہ عالمی سطح پر پھیلتا ہے، تو یہ سرمائے کے بہاؤ اور دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کو محدود کر سکتا ہے.