ماسکو کے شمال میں ایک نجی طیارہ گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں روسی کرائے کے فوجی فراہم کرنے والی کمپنی ویگنر کے سربراہ ایوگنی پریگوزن ہلاک ہو گئے۔ ان کی ہلاکت بغاوت کے ٹھیک دو ماہ بعد ہوئی۔
62 سالہ پریگوزن نے 23 اور 24 جون کو روس کے اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی، جس کے بارے میں صدر ولادی میر پوتن کا کہنا تھا کہ اس سے روس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ سکتا تھا۔
پوتن یا ان کے مفادات کی مخالفت کرنے والے کئی دیگر افراد بھی غیرواضح حالات میں مر چکے ہیں یا موت کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے چند کی تفصیلات یہاں اکٹھی کی گئی ہیں۔
الیکسی نوالنی
روس کی حزب اختلاف کے سب سے بڑے رہنما الیکسی نوالنی کو اگست 2020 میں سائبیریا میں زہر دیے جانے کے بعد علاج کے لیے جرمنی لے جایا گیا تھا۔ روس نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
نوالنی کی 2021 میں رضاکارانہ طور پر روس واپس آنے پر دنیا بھر میں تعریف ہوئی لیکن انہیں پہنچتے ہی فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ اب وہ دھوکہ دہی اور دیگر الزامات میں مجموعی طور پر ساڑھے 11 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
ان کی سیاسی تحریک کو غیرقانونی اور ’انتہا پسند‘ قرار دیا گیا ہے۔ نوالنی کی سزا میں حالیہ دنوں میں 19 سال کا مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
سرگئی سکریپال
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی انٹیلی جنس کو خفیہ معلومات فراہم کرنے والے سابق روسی ڈبل ایجنٹ سرگئی سکریپال اور ان کی بیٹی یولیا مارچ 2018 میں برطانیہ کے کیتھیڈرل شہر سالسبری میں ایک شاپنگ سینٹر کے باہر ایک بینچ پر بے ہوش پائے گئے تھے۔
انہیں تشویشناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا اور برطانوی حکام کا کہنا تھا کہ انہیں 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں سوویت فوج کے تیار کردہ اعصابی ایجنٹوں کے ایک گروپ نوویچوک نامی زہر دیا گیا تھا۔ البتہ دونوں زندہ بچ گئے تھے۔
روس نے زہر دینے میں کسی بھی کردار سے انکار کیا ہے اور برطانیہ پر روس مخالف جنون کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا۔
ولادی میر کارا – مرزا
روس میں حزب اختلاف کے ایک کارکن ولادی میر کارا مرزا کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں 2015 اور 2017 میں انہیں زہر دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جرمنی کی ایک لیبارٹری میں بعد میں ان میں پارہ، تانبا، مینگنیز اور زنک کی بلند سطح پائی گئی۔ ماسکو نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
الیگزینڈر لٹوینکو
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ کے جی بی کے سابق ایجنٹ الیگزینڈر لیٹوینکو 2006 میں 43 سال کی عمر میں لندن کے ملینیم ہوٹل میں ایک نایاب اور طاقتور تابکار آئسوٹوپ پولونیم-210 ملائی گئی سبز چائے پینے کے بعد انتقال کر گئے تھے۔
2016 میں برطانوی تحقیقات کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ پیوتن نے ممکنہ طور پر اس قتل کی منظوری دے دی تھی۔ کریملن نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
ایک سینیئر برطانوی جج کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کے جی بی کے سابق باڈی گارڈ آندرے لوگووئے اور ایک اور روسی دیمتری کووتون نے یہ قتل ایک آپریشن کے طور پر کیا تھا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکنہ طور پر روس کی فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کی ہدایت پر کیا گیا تھا، جو سوویت دور کے کے جی بی کا اہم وارث ہے۔
لیٹوینکو زہر دیے جانے سے چھ سال قبل روس سے فرار ہو کر برطانیہ چلا گیا تھا۔
الیگزینڈر پیریپلیچنی
44 سالہ روسی شہری نومبر 2012 میں جاگنگ کے دوران لندن سے باہر ایک خصوصی گیٹڈ اسٹیٹ پر واقع اپنے پرتعش گھر کے قریب مردہ پائے گئے تھے۔
الیگزینڈر پیریپیلچنی نے 2009 میں روسی منی لانڈرنگ منصوبے کی سوئس تحقیقات میں مدد کرنے کے بعد برطانیہ میں پناہ حاصل کی تھی۔ اس کی اچانک موت نے اس بات کا اشارہ دیا کہ شاید اسے قتل کیا گیا تھا۔
برطانوی پولیس نے کسی نایاب زہر سے قتل کیے جانے کے شبہات کے باوجود اس سازش کو مسترد کر دیا تھا۔ قبل از عدالتی سماعت کی تفتیش میں بتایا گیا کہ اس کے پیٹ میں جیلسیمیم کے پودے سے نایاب اور مہلک زہر کے نشانات پائے گئے ہیں۔
اپنی موت سے قبل پیریپیلچنی نے سوپ کا ایک بڑا پیالہ پیا تھا جس میں ایک مشہور روسی ڈش سورل شامل تھی۔ روس نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
وکٹر یوشچینکو
اس وقت یوکرین کے حزب اختلاف کے رہنما وکٹر یوشچینکو کو 2004 کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران زہر دیا گیا تھا جس میں انہوں نے ماسکو نواز وزیر اعظم وکٹر یانوکووچ کے خلاف مغرب نواز ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اس وقت زہر دیا گیا جب وہ کیئف کے باہر یوکرین کی سکیورٹی سروسز کے اہلکاروں کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ روس نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
ان کے جسم میں عام طور پر موجود ڈائی آکسین سے ایک ہزار گنا زیادہ یہ خطرناک مادہ پایا گیا۔ زہر سے ان کا چہرہ اور جسم مسخ ہو گیا تھا اور اس کے بعد ان کے درجنوں آپریشن ہوئے تھے۔
یوکرین کی گلیوں میں ’اورنج یا نارنجی انقلاب‘ کے احتجاج کے دوران سپریم کورٹ نے یانوکووچ کے حق میں نتائج کو کالعدم قرار دینے کے بعد دوبارہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں انھوں نے حصہ لیا اور جیت گئے تھے۔
اینا پولٹکووسکایا
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹنگ کرنے والی صحافی اینا پولٹکووسکایا کو 7 اکتوبر 2006 کو ماسکو میں ان کے فلیٹ کے باہر اس وقت گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا جب وہ سپر مارکیٹ سے گھر لوٹ رہی تھیں۔
دو بچوں کی ماں 48 سالہ پولٹکووسکایا کے قتل نے مغرب میں غم و غصے کو جنم دیا اور روس میں کام کرنے والے صحافیوں کو لاحق خطرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔