امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کو اس غیر معمولی سربراہی اجلاس کے فوری بعد ایک بار پھر ’آمر‘ کا خطاب دے دیا جس کے بارے میں دونوں فریقوں نے کہا تھا کہ یہ ان کی آج تک کی ’سب سے زیادہ نتیجہ خیز ملاقات‘ تھی۔
امریکی صدر نے یہ بات بدھ کو اپنی پریس کانفرنس کے اختتام پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کی جس سے پہلے دونوں رہنماؤں کے درمیان سیاسی اور معاشی تناؤ کے تناظر میں مہینوں کی تیاری کے بعد ایک سال میں پہلی تاریخی ملاقات ہوئی تھی۔
صدر شی جن پنگ کے ساتھ چار گھنٹے طویل بات چیت کے بعد جو بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اب بھی اپنے ان تبصروں پر قائم ہیں جو انہوں نے جون میں چینی صدر کو ڈکٹیٹر قرار دیتے ہوئے دیے تھے۔ امریکی صدر کے اس تبصرے کو چینی وزارت خارجہ نے ’انتہائی مضحکہ خیز اور غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا تھا۔
صدر بائیڈن نے سٹیج سے اترنے سے پہلے کہا: ’دیکھیں، وہ (صدر شی ایک آمر) ہیں۔ وہ اس لحاظ سے ایک ڈکٹیٹر ہیں کیوں کہ وہ ایک کمیونسٹ ملک کی قیادت کر رہے ہیں جو ہماری حکومت سے بالکل مختلف طرز حکومت پر مبنی ہے۔‘
صدر بائیڈن کا یہ بیان سان فرانسسکو میں منعقدہ ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) اجلاس کے موقع پر سربراہی اجلاس کے دوران ہونے والی پیش رفت کو متاثر کر سکتا ہے۔
چینی حکام نے پہلے بھی اس طرح کے بیانات پر اعتراضات اٹھاتے رہے ہیں۔ اس سے قبل چین نے جرمن وزیر خارجہ کی جانب سے صدر شی کو آمر قرار دیے جانے پر جرمنی کے سفیر کو طلب کیا تھا۔
اس سے قبل صدر بائیڈن نے ریڈ کارپٹ پر صدر شی کا استقبال کیا، ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور غیر معمولی تبادلہ خیال کے دوران امریکی صدر نے چینی ہم منصب کو اپنے فون پر ایک تصویر دکھائی۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونینگ کے مطابق تبادلہ خیال کے دوران بائیڈن نے ایک موقع پر اپنا ایپل فون کھولا اور صدر شی سے پوچھا: ’کیا آپ اس نوجوان کو جانتے ہیں؟‘
اس پر چینی صدر نے جواب دیا: ’اوہ ہاں، یہ سان فرانسسکو میں ان کی چھوٹی عمر کی تصویر کیا تھی۔ یہ 38 سال پہلے کی بات ہے۔‘
چینی ترجمان نے وہ تصویر بھی شیئر کی جو صدر بائیڈن نے شی جن پنگ کو دکھائی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تصویر میں صدر شی کو 1985 میں امریکہ کے اپنے پہلے سفر کے دوران مشہور گولڈن گیٹ برج کے سامنے پوز دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
امریکی صدر نے اس بات چیت کا خلاصہ ’کچھ سب سے زیادہ تعمیری اور نتیجہ خیز گفتگو‘ کے طور پر کیا۔
بعد میں دونوں رہنماؤں کو کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو کے قریب تاریخی باغ ’فلولی اسٹیٹ‘ میں چہل قدمی کرتے ہوئے دکھایا گیا جہاں انہوں نے ملاقات کی۔
جو بائیڈن نے کہا کہ دونوں ممالک نے بات چیت کے دوران دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان مواصلات کو دوبارہ شروع کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست رابطے کے سلسلے میں اہم سمجھوتہ کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’صدر شی اور میں نے اتفاق کیا کہ ہم میں سے ہر ایک براہ راست فون کال اٹھا سکتا ہے اور ہم فوری طور پر بات چیت کر سکتے ہیں۔‘
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ’امریکی صدر نے ملاقات کے دوران ان موضوعات کو اٹھایا جن پر واشنگٹن کو تحفظات ہیں۔ ان معاملات میں زیر حراست امریکی شہری، سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق اور بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کی جارحانہ سرگرمیاں شامل ہیں۔‘
دوسری جانب چینی وزارت خارجہ کے مطابق صدر شی نے کہا کہ ’چین امریکہ تعلقات دنیا میں سب سے اہم دو طرفہ تعلقات ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور دونوں کے مفاد میں تعاون چین اور امریکہ کے 50 سالہ تعلقات کے ساتھ ساتھ تاریخ کے بڑے ممالک کے درمیان تنازعات سے سیکھا گیا سبق ہے۔‘
© The Independent