پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بانی پی ٹی آئی کی تقاریر اور مختلف جریدوں میں مضامین کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہے گا جبکہ سیاسی تجزیہ کار اس عمل کو ان کی ’ورچوئل موجودگی‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل رہنما شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ ’عمران خان کی مصنوعی ذہانت (اے آئی) تقاریر ہوں یا جریدوں میں مضمون چھپنا، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘
سابق وزیر اعظم عمران خان اگست 2023 سے مختلف مقدمات میں قید میں ہیں۔ بانی پی ٹی آئی ایسے وقت میں اڈیالہ جیل میں تین سال کی سزا کاٹ رہے ہیں جب ملک میں آئندہ ماہ عام انتخابات 8 فروری کو طے ہیں۔
اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سمیت اہم معاملات پر دیگر جماعتوں سے رابطے اور ملاقاتیں جاری ہیں۔
جہاں کئی سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کی حتمی فہرستیں اور ٹکٹیں جاری کر چکی ہیں وہیں پی ٹی آئی کہتی ہے کہ وہ اب بھی عدالتوں میں نامزدگی فارم، لیول پلینگ فیلڈ اور بلے کا نشان واپس لینے کے لیے قانونی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔
پی ٹی آئی کو پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم جہاں اس کے کئی رہنما جیل میں ہیں یا پارٹی چھوڑ چکے ہیں وہیں کچھ رہنما پارٹی کو انتخابات میں کامیابی دلوانے کے لیے کوشاں ہیں۔
حالیہ دنوں بانی پی ٹی آئی عمران خان کا بین الاقوامی جریدے میں مضمون شائع ہوا ہے جہاں انہوں نے حکومت پر ’پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کے بنیادی حق سے محروم رکھنے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔
جماعت کے ورچوئل جلسوں کے دوران ان کی مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے تیار کردہ تقاریر بھی نشر کی جا رہی ہیں۔
If Pakistan’s elections are held under the current circumstances, “they would be a disaster,” the former prime minister warns. “The only viable way forward for Pakistan is fair and free elections,” he argues in a guest essay https://t.co/LjtKp2MWhU
— The Economist (@TheEconomist) January 8, 2024
سیاسی منظر نامے پر پی ٹی آئی کی ان کوششوں کو آئندہ عام انتخابات کے لیے پارٹی کی انتخابی مہم کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
ساتھ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں رہتے ہوئے پارٹی کی انتخابات میں کامیابی کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
پی ٹی آئی کے وکیل رہنما شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے عمران خان کا کردار محدود ہو گیا ہے لیکن جیل سے باہر یہی کردار بڑا ہوگا
’اس سب کے باوجود پارٹی کے ووٹر ان کے ساتھ کھڑے ہیں، جماعت اور عمران خان کے پاس وکٹم کارڈ بھی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ اس سب کا نقصان نہیں فائدہ ہوگا۔
’عمران خان کی اے آئی تقاریر ہوں یا جریدوں میں مضمون چھپنا، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘
شعیب شاہین نے کہا مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کی جانے والی تقاریر، مضامین اور صحافیوں سے ان کا گفتگو کرنا الیکشن میں پی ٹی آئی کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی اے آئی کی تقریر بہت کامیاب رہی جبکہ ان کے مضمون کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہونا، ان تمام چیزوں سے ان کے بیانیے کو تقویت پہنچ رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی اے آئی تقاریر ہوں یا ان کا جریدوں میں مضمون چھپنا ہو، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دو روز بعد 13 جنوری کو ہونے والے ورچوئل جلسے میں ایک مرتبہ پھر عمران خان کی اے آئی تقریر ہوگی۔‘
دوسری جانب نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے گذشتہ شب ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کو مضمون پر اعتراض نہیں اس جریدے پر ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما خود اس مضمون کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب جیل میں کچھ لکھنے کی سہولیات موجود نہیں ہیں تو ایسے میں جریدے میں مضمون کیسے چھپ سکتا ہے؟ ان کا مضمون اتنا ہی حقیقی ہے جتنے ان کے ٹویٹ حقیقی ہیں۔
تجزیہ کاروں کی رائے
انڈپینڈنٹ اردو نے سیاسی مبصرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے عمران خان جیل کے اندر رہ کر پارٹی رہنماؤں کی کس حد تک رہنمائی کر سکتے ہیں؟ اپنی اے آئی تقاریر اور بیانات سے کیا بیانیہ بنانے اور پارٹی کو آگے لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اور ان کے بیانات اور اے آئی تقاریر کتنی موثر ہو سکتی ہیں؟
جیل میں رہنا ہی ان کی پارٹی کی سب سے بڑی مدد
صحافی و سینیئر سیاسی تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے ان حربوں کو انتخابات کے پیش نظر عمران خان کی ورچوئل موجودگی قرار دیا ہے۔
انہوں نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جیل میں رہتے ہوئے بھی سرگرم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے آرٹیکل کی اشاعت یا مصنوعی ذہانت کے ذریعے تقریر نشر ہونا ان کی ورچوئل موجودگی ظاہر کرتی ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔
عمران خان کے جیل میں رہتے ہوئے انتخابات میں مدد سے متعلق سوال پر عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’عمران خان کا جیل میں رہنا ہی ان کی پارٹی کی سب سے بڑی مدد ہے۔‘
عاصمہ کے مطابق عمران خان کے جیل میں رہنے سے صرف ایک فرق پڑا ہے کہ وہ منظم انداز میں جلسہ نہیں کر سکے جس طرح وہ پہلے کیا کرتے تھے۔
اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد انہوں نے جو لہر بنائی اور لوگوں کو متحرک کیا، یہ ایک قابل ذکر بات ہے۔
’تاہم عمران خان اگر جیل سے باہر ہوتے تو زیادہ رنگ پڑتا۔ ان کی جماعت کو تنظیمی اعتبار سے بہت نقصان ہو رہا ہے اور جماعت کی حلقہ کی سیاست بہت کمزور ہو گئی ہے۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق مضمون لکھ کر عمران خان متحرک ضرور ہیں لیکن اس کا دور رس فائدہ نہیں ہے۔
’پی ٹی آئی کی سیاست ہمیشہ روز مرہ کی بنیاد پر رہی ہے اور ان کے پاس دیرپا بیانیہ نہیں رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب اے آئی تقاریر کا تاثر دنیا میں اچھا نہیں گیا۔ اس کے ویوز تو اچھے مل جاتے ہیں لیکن اس کے مثبت نتائج نظر نہیں آئے ہیں۔‘
آسانیوں کے بجائے مزید مشکلات پیدا ہوں گی
دوسری جانب صحافی محمل سرفراز نے کہا کہ عمران خان کو اس طرز کے حربے طویل مدت میں سیاسی فائدہ نہیں دیں گے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا عمران خان کی پارٹی اور سپورٹرز کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اے آئی کے ذریعے تقاریر کریں یا جیل سے مضامین لکھیں، اس سے ان کی انتخابی مہم کو تقویت ملتی ہے اور ووٹر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اسے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں دیکھیں تو یہ چیزیں اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر سے ان کے لیے آسانیوں کے بجائے مزید مشکلات پیدا کریں گی۔
محمل نے کہا کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ایک دباؤ کا حربہ ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ ان سے بات کرنے پر مجبور ہو جائے لیکن ایسا نہیں لگتا ہے۔
’ایک ہائبرڈ نظام میں جب نو مئی جیسا واقعہ ہوا ہو، وہاں بار بار اس جھوٹ کو دہرانا کہ امریکہ کے کہنے پر اسٹیبلشمنٹ نے انہیں ہٹایا کوئی خاص حربہ نہیں ہے۔
’البتہ یہ ضرور ہے کہ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا اور میڈیا کا استمال کرنا اور خبروں میں رہنا آتا ہے، اس حد تک یہ ٹھیک ہے لیکن طویل مدت میں یہ سیاسی فائدہ نہیں دیں گے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔