نئی حکومت کے لیے چیلنجز

پاکستان میں آٹھ فروری کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد تمام سیاسی جماعتیں ملک میں اپنے طور پر اکیلے حکومت بنانے سے گریز کر رہی ہیں جس کی وجہ نئی حکومت کو درپیش گمبھیر مسائل اور دشواریاں ہیں۔

9 فروری 2024 کو لاہور میں پاکستان کے عام انتخابات کے ایک دن بعد لوگ ایک دکان پر ٹیلی ویژن سکرین پر تازہ ترین انتخابی نتائج کو براہ راست دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں آٹھ فروری کے پارلیمانی عام انتخابات ملک کی سیاسی تاریخ کے ’سب سے متنازع‘ الیکشنز ثابت ہوئے، جن میں کئی سوالات اٹھے ہیں اور ان سوالات نے پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔

مرکز میں بکھرے ہوئے مینڈیٹ کی وجہ سے تینوں بڑی جماعتوں میں سے کوئی بھی اکیلا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور مخلوط حکومت کے قیام کی دوڑ میں تخت سنبھالنے سے گریزاں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی حکومت بنانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہے لیکن کابینہ میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں۔

اسی طرح پی ایم ایل این اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے کا دعویٰ کرنے کے بعد ابہام کا شکار نظر آرہی ہیں جب کہ پاکستان تحریک انصاف دھاندلی اور بے ضابطگیوں کی وجہ سے انتخابی نتائج پر سوال اٹھانے اور حکومت سازی کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دے رہی ہے، جس کے سبب نئی حکومت بننے سے پہلے زوال پزیری کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان میں نئی مخلوط حکومت اپنی بیساکھیوں کے سبب اسٹیبلشمنٹ پر بہت زیادہ انحصار کرے گی۔ اس لیے ملک میں ہائبرڈ یعنی فوجی سویلین راج جاری رہے گا۔

صوبائی سطح پر پی پی پی اور پی ٹی آئی سے وابستہ آزاد امیدوار بالترتیب سندھ اور خیبر پختونخوا صوبوں میں حکومتیں بنائیں گے، جب کہ پنجاب مسلم لیگ ن کے پاس جائے گا۔ بلوچستان میں مخلوط حکومت کی توقع ہے۔ تین مختلف صوبوں میں مرکزی دھارے کی تین سیاسی جماعتوں کی حکمرانی کے ساتھ مرکز میں کسی بھی مخلوط حکومت کے لیے (ملک میں اقتصادی، سلامتی اور سفارتی چیلنجز کے ہوتے ہوئے) حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ انتخابی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں ریاست اور معاشرے کا فرق گزشتہ سال نو مئی کو ہونے والے فسادات کے دوران مزید وسیع ہو گیا ہے۔ پاکستان کے کل تقریباً 13 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 45 فیصد (پانچ کروڑ سے زیادہ) نوجوانوں نے بھاری اکثریت سے عمران خان کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

اس وقت پاکستان کو ایک نازک معاشی صورت حال کا سامنا ہے اور اس طرح کے چیلنجز کو حل کرنے کے لیے ایک مضبوط اور مقبول حکومت کی ضرورت ہے جو مضبوط فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

پاکستان ایک مشکل مالی سال میں داخل ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ کی معیاد اپریل میں ختم ہو رہی ہے، جب کہ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ (ایس بی اے)، تین ارب ڈالر کا ہنگامی انتظام، جس نے ڈیفالٹ سے بچنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب ایک نئے پروگرام کے لیے مارچ کے دوسرے ہفتے سے مذاکرات کا آغاز ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئی حکومت کو مئی میں ایک مشکل بجٹ کا اعلان بھی کرنا ہو گا، جس میں سبسڈیز (مراعات) کی واپسی اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی ضرورت ہو گی۔

اسی طرح بیرونی ادائیگیوں کے لیے مالیاتی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ 260 ارب ڈالر کے کل قرضوں میں سے 116 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ہیں۔

اسی طرح مہنگائی کا، جو دسمبر 2023 میں 29.7 فیصد تھی، 2024 میں 20 فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔ دریں اثنا 2024 میں شرح نمو ایک معمولی دو فیصد کے آس پاس رہے گی۔ ان معاشی اور مالیاتی چیلنجوں کے لیے ایک طاقتور حکومت کی ضرورت ہے۔ ایک کمزور حکومت ملک کو ان مشکلات سے نہیں نکال پائے گی۔

اسی طرح سفارتی سطح پر ایک کمزور وزیر اعظم کے لیے ملک کی تنہائی کو ختم کرنا اور اسے آگے لے جانا بھی مشکل ہو گا۔

افغانستان، بھارت اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں۔

ایک کمزور وزیر اعظم کے لیے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔ امریکی سٹریٹیجیک کیلکوللس میں افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کی حمایت ہو گی۔

اگرچہ پاکستان کے چین، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق ہیں لیکن یہ ممالک پاکستان کے اندرونی سیاسی غیر یقینی صورت حال سے پریشان ہیں۔

پاکستان کے حوالے سے ان کی مستقبل کی پالیسیوں کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہو گا کہ انتخابات کے بعد حالات معمول پر آتے ہیں یا نہیں؟

سکیورٹی کے محاذ پر حالات تشویش ناک حد تک بگڑ چکے ہیں۔ بلوچ باغی، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اسلامک اسٹیٹ آف خراسان (آئی ایس کے) خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں تقریباً روزانہ حملے کر رہے ہیں۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ عوامی مینڈیٹ کی کمی اور تنگ مالیاتی وسائل کی وجہ سے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ اس پس منظر میں ایک غیر مقبول حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی لہر کو روکنے کے لیے بھی جدوجہد کرے گی۔

پاکستان ایک مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ملک کو آگے لے جانے کے مستقبل کے نقطہ نظر کے ساتھ ایک عظیم سیاسی مکالمے کے ذریعے سیاسی اتفاق رائے سے پاکستان کو موجودہ مسائل سے کوئی سیاسی جماعت تنہا نہیں نکال سکتی۔ ملک کو ٹھیک کرنے کی ضروری ہے کہ اس کے لیے سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک نیا سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر